• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 21296

    عنوان: میرا سوال ہے اس کے لیے میں بہت پریشان ہوں۔ میں سعودی میں ایک دکان میں کام کرتا ہوں میرا اس دکان میں کام کرنا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحیح ہے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ غلط ہے۔ اب دکان اس طرح سے ہے ایک سعودی آدمی نے چالیس ہزار ریال دیا دکان کرنے کے لیے اس ریال سے دکان ہوئی چار آدمی اس دکان میں کام کرنے لگے، اس میں کسی کی تنخواہ بارہ سو ریال، کسی کی پندرہ سو ،ایک آدمی کی تنخواہ پانچ ہزار ریال، جن کی تنخواہ پانچ ہزار ریال تھی وہی اس دکان کے مدیر تھے، مال خریدنا اور بچوانا سب کے وہی ذمہ دار تھے۔ جب مہینے کی آخری تاریخ ہوتی تھی جن کی تنخواہ پانچ ہزارریال تھی وہی سب لوگوں کی تنخواہ دیتے تھے اور اپنی بھی لیتے تھے اور دکان کا کرایہ دے دیتے تھے اور کچھ سعودی مالک کو دے دیتے تھے۔ کسی مہینہ کم اور کسی مہینہ زیادہ، سعودی مالک کا متعین نہیں تھا جیسی دکان چلتی تھی اسی حساب سے دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اگر ریال بچتا تھا تو اس کا دکان کے اندر مال خرید کر ڈال دیا جاتا تھا۔ اسی طریقہ سے دکان کچھ سالوں تک چلتی رہی اس کے بعد جن کی تنخواہ پانچ ہزار ریال تھی وہ سعودی مالک سے کہے کہ ہم تنخواہ پر نہیں چلائیں گے معاہدہ پر چلائیں گے۔ معاہدہ اس طریقہ سے طے ہوا کہ دکان میں کل مال ایک لاکھ پچیس ہزار ریال کا ہے دکان کا مال ایک ایک گن کر حساب نہیں ہوا اندازہ سے مان لیا گیا۔ اب جس نے معاہدہ پر لیا وہی سب کی تنخواہ دیں گے اور دکان کا کرایہ دیں گے اور سعودی کو ہر مہینہ دس ہزار ریال دیں گے اس کے بعد جو فائدہ ہوگا وہ ان کا ہے اسی طرح کچھ مہینے چلا۔ اس کے بعد انھوں نے سعودی سے کہا فائدہ کم ہو رہا ہے دس ہزار ریال نہیں دیں گے آٹھ ہزار ریال دیں گے، کچھ مہینے کے بعد پانچ ہزار ریال دئے، اب اس وقت بتیس سو ریال دیتے ہیں اس وقت اسی طرح دکان چل رہی ہے۔ میں اس دکان میں پہلے بھی تنخواہ پر کام کرتا تھا اور اب بھی تنخواہ پر کام کرتا ہوں، لیکن معاہدہ کے بعد میری تنخواہ پہلے سے زیادہ ہوئی ہے اس کا جوا ب ضروردیں؟ میں نے اس کے پہلے لکھا تھا جواب نہیں آیا، بہت مہربانی ہوگی اس کا جواب دیں؟ 

    سوال: میرا سوال ہے اس کے لیے میں بہت پریشان ہوں۔ میں سعودی میں ایک دکان میں کام کرتا ہوں میرا اس دکان میں کام کرنا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحیح ہے اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ غلط ہے۔ اب دکان اس طرح سے ہے ایک سعودی آدمی نے چالیس ہزار ریال دیا دکان کرنے کے لیے اس ریال سے دکان ہوئی چار آدمی اس دکان میں کام کرنے لگے، اس میں کسی کی تنخواہ بارہ سو ریال، کسی کی پندرہ سو ،ایک آدمی کی تنخواہ پانچ ہزار ریال، جن کی تنخواہ پانچ ہزار ریال تھی وہی اس دکان کے مدیر تھے، مال خریدنا اور بچوانا سب کے وہی ذمہ دار تھے۔ جب مہینے کی آخری تاریخ ہوتی تھی جن کی تنخواہ پانچ ہزارریال تھی وہی سب لوگوں کی تنخواہ دیتے تھے اور اپنی بھی لیتے تھے اور دکان کا کرایہ دے دیتے تھے اور کچھ سعودی مالک کو دے دیتے تھے۔ کسی مہینہ کم اور کسی مہینہ زیادہ، سعودی مالک کا متعین نہیں تھا جیسی دکان چلتی تھی اسی حساب سے دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد اگر ریال بچتا تھا تو اس کا دکان کے اندر مال خرید کر ڈال دیا جاتا تھا۔ اسی طریقہ سے دکان کچھ سالوں تک چلتی رہی اس کے بعد جن کی تنخواہ پانچ ہزار ریال تھی وہ سعودی مالک سے کہے کہ ہم تنخواہ پر نہیں چلائیں گے معاہدہ پر چلائیں گے۔ معاہدہ اس طریقہ سے طے ہوا کہ دکان میں کل مال ایک لاکھ پچیس ہزار ریال کا ہے دکان کا مال ایک ایک گن کر حساب نہیں ہوا اندازہ سے مان لیا گیا۔ اب جس نے معاہدہ پر لیا وہی سب کی تنخواہ دیں گے اور دکان کا کرایہ دیں گے اور سعودی کو ہر مہینہ دس ہزار ریال دیں گے اس کے بعد جو فائدہ ہوگا وہ ان کا ہے اسی طرح کچھ مہینے چلا۔ اس کے بعد انھوں نے سعودی سے کہا فائدہ کم ہو رہا ہے دس ہزار ریال نہیں دیں گے آٹھ ہزار ریال دیں گے، کچھ مہینے کے بعد پانچ ہزار ریال دئے، اب اس وقت بتیس سو ریال دیتے ہیں اس وقت اسی طرح دکان چل رہی ہے۔ میں اس دکان میں پہلے بھی تنخواہ پر کام کرتا تھا اور اب بھی تنخواہ پر کام کرتا ہوں، لیکن معاہدہ کے بعد میری تنخواہ پہلے سے زیادہ ہوئی ہے اس کا جوا ب ضروردیں؟ میں نے اس کے پہلے لکھا تھا جواب نہیں آیا، بہت مہربانی ہوگی اس کا جواب دیں؟ 

    جواب نمبر: 21296

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ل):766=252tl-6/1431

    صورت مسئولہ میں یہ معاملہ باطل ہے، اس لیے اس میں نہ آپ کا لگنا درست ہے اور نہ ہی مدیر کا نفع لینا درست ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند