• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 150171

    عنوان: کیا ادارے کو اپنے اوقات کار کے علاوہ اپنے ملازمین کو پا بند کرنے کی شرعیت کی رو سے اجازت ہے ؟

    سوال: سوال ۔ میں ایک سر کاری ادارے میں ملا زمت کرتا ہوں ۔ مجھ سمیت کئی ملازمین کو مہنگائی کی بڑھتی ہوئی صورتحال اور اپنے خاندان کی جائز ضروریات کی بجا آوری میں سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔ اللہ کے فضل وکرم سے میرے اندر صلاحیت ہے کہ میں آفس کے مقرر کردہ اوقات کے بعد چھو ٹا ساکاروبار یا ملازمت کرسکتا ہوں تاکہ میری ضروریات کفایت سے پوری ہو سکیں۔ ہمارہ ادارہ آفس کے بعد کام کی حو صلہ شکنی کررہا ہے ۔ یہ ادارہ اپنے ملازمین سے ملازمت کے دوران زبردستی ایک دستاویز پہ دستخط کروالیتا ہے جس میں یہ حلف لیا جاتا ہے کہ میں آفس کے دورانیہ کے بعد ادارے کی اجازت کے بغیر کسی بھی قسم کا کوئی کام نہیں کروں گا ، ملحوظ رہے ایسی کوئی بات ملازمت حاصل کرتے وقت نہیں بتائی جاتی ہے ِ ِِِِِِ ۔ اگر بات صرف اجازت کی طلبی تک ہوتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن یہ ادارہ اجازت دینے کی صورت میں ، دوسری آمدنی کا تیس فیصد حصہ ملازمین کی تنخواہ سے کاٹ لیتا ہے جو ہمارے نزدیک سراسر ظلم ہے ۔ موجودہ حالات میں ادارے کی پالیسی کی وجہ سے ملازمین کی بہت بڑی تعداد بغیر بتائے آفس کے اوقات کے بعد ملازمت کررہی ہے ۔ علماء کرام سے اس ضمن میں کچھ سوالات کے جوابات دینے کی گزارش ہے : ۱۔ کیا ملازمین تیس فیصد جبری کٹوتی سے بچنے کی خاطر ادارے کو بتائے بغیر آفس کے اوقات کے بعد ملازمت یا چھوٹا کاروبارکر سکتے ہیں؟ 2۔ کیا بغیر بتائے کوئی کام کرنے کی صورت میں آمدنی حلال ہوگی؟ 3۔ کیا ادارے کو اپنے اوقات کار کے علاوہ اپنے ملازمین کو پا بند کرنے کی شرعیت کی رو سے اجازت ہے ؟ 4۔ کیا ادارے کو دین یہ اجازت دیتا ہے کہ اگر کوئی ملازم افس کے اوقات کے بعد بغیر اجازت کوئی ملازمت کرتے ہوئے پایا جائے تو اس کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کاروائی کی جائے ؟

    جواب نمبر: 150171

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 673-679/N=7/1438

     سرکاری ادارے کے ملازمین صرف ڈیوٹی کے متعینہ اوقات میں اجیر خاص ہوتے ہیں، ڈیوٹی کا وقت ختم ہوجانے کے بعد وہ کسی درجے میں بھی ادارے کے اجیر یا ملازم نہیں رہتے؛ اس لیے اگر کسی سرکاری ادارے نے فارغ اوقات میں ملازمت یا کوئی کاروبار نہ کرنے کی شرط لگارکھی ہے تو شرعاً وہ شرط درست نہیں؛ بلکہ باطل وغیر معتبر ہے ؛ کیوں کہ خلاف شرع ہے۔ اور اگر ادارے نے فارغ اوقات میں کوئی ملازمت یا کاروبار کرنے کی وجہ سے ملازم کی خارجی آمدنی کا تیس فیصدحصہ اس کی تنخواہ سے وضع کیا جب کہ ملازم نے ڈیوٹی کے متعینہ اوقات میں مفوضہ ذمہ داریاں بہ حسن وخوبی انجام دیں،ان میں اختیاری طور پر کوئی کوتاہی نہیں کی تو یہ تنخواہ کی کٹوتی ناجائز ہوگی۔ لو استوٴجر أحد ھوٴلاء علی أن یعمل للمستأجر إلی وقت معین یکون أجیراً خاصاً في مدة ذلک الوقت (مجلة الأحکام العدلیة مع شرحھا: درر الحکام لعلي حیدر، ۱: ۴۵۴، رقم المادة: ۴۲۲، ط: دار عالم الکتب للطباعة والنشر والتوزیع، الریاض)۔

    اب اوپر کی مختصر تمہید کے بعد اصل سوالات کے جواب حسب ذیل ہیں:

    (۱): جی ہاں! کرسکتے ہیں، شرعاً کوئی حرج نہیں؛ البتہ آفس کے اوقات میں آفس کے کام میں اختیاری طور پر کوئی کوتاہی نہ کی جائے۔ اورحلف نامے پر دستخط کرکے جو قسم ہوئی ، اس کا کفارہ ادا کردیا جائے ۔اور اگر کوئی شخص از راہ تقوی پرہیز کرے تو اچھی بات ہے۔

    (۲): جی ہاں! فارغ اوقات میں کی جانے والی ملازمت یا کاروبار کی آمدنی حلال ہوگی، ادارے کی ناجائز شرط کی وجہ سے آمدنی پر حرام ہونے کا حکم نہ ہوگا؛ البتہ وہ ملازمت یا کاروبا جائز ہونا چاہیے، حرام نہیں ہونا چاہیے۔

    (۳): جی! نہیں، جیسا کہ اوپرمختصر تمہید میں ذکر کیا گیا۔

    (۴): اگر ملازم آفس کے اوقات میں ادارے کے مفوضہ کام میں کوئی اختیاری کوتاہی نہیں کرتا ؛ بلکہ مفوضہ ذمہ دایاں بہ حسن وخوبی انجام دیتا ہے تو محض خارج میں دوسری ملازمت یا کاروبار کی وجہ سے ملازم کو کسی طرح کی تادیب کرنا سراسر ظلم وناجائز ہوگا ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند