معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 149104
جواب نمبر: 149104
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 638-677/Sn=7/1438
فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ استاذ کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ طالب علم کی غلطی پر مناسب تنبیہ کرے یا تھوڑی پٹائی کرے؛ کیوں کہ ”ولی“ کی طرف سے دلالةً اس کی اجازت ہوتی ہے یجوز للمعلم أن یضربہ بإذنِ أبیہ نحو ثلاث ضرباتٍ ضربًا وسطًا سلیمًا لا بخشبة إلخ (حاشیة الطحطاوي علی الدر) وقال الشامي: وفیہا عن الروضة ولو أمر غیرہ بضرب عبدہ حلّ للمأمور ضربہ بخلاف الحرّ، قال: فہذا تنصیص علی عدم جواز ضرب ولد الآمر بأمرہ بخلاف المعلم؛ لأن المأمور یضربہ نیابةً عن الأب لمصلحة والمعلم یضربہ بحکم الملک بتملیک أبیہ لمصلحة الولد (درمختار مع الشامي: ۶/۱۳۰، زکریا) لیکن اب چوں کہ حالات کافی بدل چکے ہیں، ولی کی طرف سے دلالةً اجازت کی بات بھی پہلے کی طرح نہ رہی۔ نیز آپ کے یہاں حکومت کی طرف سے بھی سختی کے ساتھ منع ہے، اسی طرح بعض مرتبہ اساتذہ بچوں کو مارنے یا تنبیہ کرنے میں حدودِ شرع کی بھی رعایت نہیں کرتے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں ادارہ یہ قانون بناسکتا ہے کہ اساتذہ کا کام بچوں کو پڑھانا ہے، اگر کوئی بچہ سبق یاد نہیں کرتا یا غیرحاضری کرتا ہے تو خود تنبیہ نہ کریں اور نہ ہی اسے ماریں؛ بلکہ انتظامیہ کو اس کی اطلاع دیدیں، بہ وقت تقرری اساتذہ کو یہ بات بہ صراحت بتلادی جائے اگر پھر بھی اساتذہ متعدد بار اس کی خلاف ورزی کریں تو ادارہ انھیں معزول کرسکتا ہے، شرعاً اس کی گنجائش ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند