معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 148367
جواب نمبر: 148367
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 508-503/SN=5/1438
(۱،۲) جس شخص کو کسی نزاعی معاملے کا علم ہو اور اس سے گواہی طلب کی جائے تو بلا کسی خاص عذر کے گواہی نہ دینا شرعاً جائز نہیں ہے؛ لہٰذا عمر اور خالد کے پاس اگر ”شہادت“ سے مانع کوئی معقول عذر نہیں ہے تو صورتِ مسئولہ میں ان پر گواہی دینا شرعاً لازم ہے، ورنہ آیت کریمہ ولا تکتموا الشہادة الآیة کے تحت داخل ہوکر گنہگار ہوں گے۔ (دیکھیں: معارف القرآن: ۱/۶۸۸،ط: کراچی نیز فتاوی محمودیہ: ۱۴/۱۵۴، ط: ڈابھیل) ۔
(۳) ”کتمانِ شہادت“ پر کسی دنیوی سزا کا ذکر کتبِ فقہ میں نہیں ملتا؛ لیکن اخروی سزا تو آیت کریمہ ”ولا تکتموا الشہادة، ومن یکتمہا فإنہ آثم قلبہ“ میں بیان کر دیا گیا ہے ، یعنی بڑا گناہ ہے جس کا خمیازہ آخرت میں حسب ضابطہ خداوندی بھگتنا ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند