• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 148367

    عنوان: گواہی کے وقت خاموشی اختیار کرنا؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلے کے بارے میں کہ زید ایک دکان کا منیجر ہے اور ان کے ساتھ بکر،عمر،خالد بھی کام کرتے ہیں۔بکراور عمر کے درمیان کسی بات پر اختلاف پیدا ہوجاتاہے بکر عمر پر کچھ بات کہہ دیتا ہے جس پر عمر زید اور خالد سے گواہی طلب کرتا ہے کہ آیا بکر کی بات میں صداقت ہے یا نہیں؟جس پر زیداور خالد خاموشی اختیار کرلیتاہے نہ ہاں نہ ناں (۱) کیا گواہی میں خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے ؟ (۲) کیا سورة البقرة کی کے مطابق\"ولاتکتمواالشہادة\"کے زمرے میں زید اور خالد آسکتے ہیں؟ (۳) گواہی نہ دینا کا دنیاوی سزا اور اخروی سزا کیاہے ۔بینواتفصیلا وتوجروا کثیرا

    جواب نمبر: 148367

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 508-503/SN=5/1438

    (۱،۲) جس شخص کو کسی نزاعی معاملے کا علم ہو اور اس سے گواہی طلب کی جائے تو بلا کسی خاص عذر کے گواہی نہ دینا شرعاً جائز نہیں ہے؛ لہٰذا عمر اور خالد کے پاس اگر ”شہادت“ سے مانع کوئی معقول عذر نہیں ہے تو صورتِ مسئولہ میں ان پر گواہی دینا شرعاً لازم ہے، ورنہ آیت کریمہ ولا تکتموا الشہادة الآیة کے تحت داخل ہوکر گنہگار ہوں گے۔ (دیکھیں: معارف القرآن: ۱/۶۸۸،ط: کراچی نیز فتاوی محمودیہ: ۱۴/۱۵۴، ط: ڈابھیل) ۔

    (۳) ”کتمانِ شہادت“ پر کسی دنیوی سزا کا ذکر کتبِ فقہ میں نہیں ملتا؛ لیکن اخروی سزا تو آیت کریمہ ”ولا تکتموا الشہادة، ومن یکتمہا فإنہ آثم قلبہ“ میں بیان کر دیا گیا ہے ، یعنی بڑا گناہ ہے جس کا خمیازہ آخرت میں حسب ضابطہ خداوندی بھگتنا ہوگا۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند