• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 14813

    عنوان:

    عبدالرحمن اور کامران نے ایک کاروبار شروع کیا جس میں عبدالرحمن اپنی خدمات مہیاکرتا تھا اور کامران صرف نقد پیسہ لگاتا تھا فیکٹری کے اس کاروبار میں۔اس کاروبار میں باہمی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر ماہ چار ہزار روپیہ عبدالرحمن کو دیا جائے گا، لیکن جب تک فیکٹری صحیح طریقہ سے نہیں چلے گی چھ سو روپیہ ہر ہفتہ عبدالرحمن کو دیا جائے گا۔ اور بقیہ رقم جو کہ تقریباً ہر ماہ پندرہ سو روپیہ ہوتی ہے بعد میں عبدالرحمن کو دی جائے گی۔اب فیکٹر ی بند ہوگئی ہے لیکن درج ذیل کے بارے میں ایک فتوی کی ضرورت ہے۔(۱) فیکٹری کے بند ہونے کی بڑی وجہ عبدالرحمن کا فیکٹری میں حاضر نہ ہونااور مناسب وقت نہ دینا اور فیکٹری سے غیرحاضررہنا تھی۔ (۲)ہر ہفتہ چھ سو روپیہ عبدالرحمن کو دیا گیا اب وہ مزیدہر ماہ پندرہ سو روپیہ کا تقاضا کررہے ہیں جب کہ فیکٹری بند ہوچکی ہے۔(۳)فقہ کے مطابق ہم کو اس ادائیگی اور اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟

    سوال:

    عبدالرحمن اور کامران نے ایک کاروبار شروع کیا جس میں عبدالرحمن اپنی خدمات مہیاکرتا تھا اور کامران صرف نقد پیسہ لگاتا تھا فیکٹری کے اس کاروبار میں۔اس کاروبار میں باہمی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر ماہ چار ہزار روپیہ عبدالرحمن کو دیا جائے گا، لیکن جب تک فیکٹری صحیح طریقہ سے نہیں چلے گی چھ سو روپیہ ہر ہفتہ عبدالرحمن کو دیا جائے گا۔ اور بقیہ رقم جو کہ تقریباً ہر ماہ پندرہ سو روپیہ ہوتی ہے بعد میں عبدالرحمن کو دی جائے گی۔اب فیکٹر ی بند ہوگئی ہے لیکن درج ذیل کے بارے میں ایک فتوی کی ضرورت ہے۔(۱) فیکٹری کے بند ہونے کی بڑی وجہ عبدالرحمن کا فیکٹری میں حاضر نہ ہونااور مناسب وقت نہ دینا اور فیکٹری سے غیرحاضررہنا تھی۔ (۲)ہر ہفتہ چھ سو روپیہ عبدالرحمن کو دیا گیا اب وہ مزیدہر ماہ پندرہ سو روپیہ کا تقاضا کررہے ہیں جب کہ فیکٹری بند ہوچکی ہے۔(۳)فقہ کے مطابق ہم کو اس ادائیگی اور اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟

    جواب نمبر: 14813

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1302=1238/ب

     

    آپ کے کاروبار کی نوعیت شرکت مضاربت کی ہے،اس میں کسی ایک شریک کو ماہانہ متعین رقم لینا جائز نہیں بلکہ یہ طے ہونا چاہیے کہ جس قدر کاروبار میں سالانہ نفع ہوگا اس میں سے آدھا آدھا یا 40فی صد اور 60 فی صد ہوگا۔ اب فیکٹری بند ہونے کی صورت میں یہ دیکھا جائے کہ نفع کس قدر ہوا ہے، اس کو آدھا آدھا تقسیم کرلیا جائے، اور جو زائد رقم عبدالرحمن کی طرف چلی گئی ہے اس سے وصول کرلی جائے او راگر نفع نہیں ہوا ہے، بلکہ نقصان ہوا ہے تو عبدالرحمن کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ جو کچھ پیسہ وہ لے چکا ہے اسے بھی واپس کردینا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند