معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 12538
(۱)زبانی
ہبہ کا کیا تصور ہے؟ اس کی شرط اولین کیا ہے؟ یہ سسٹم کیوں متعارف کرایا گیا ہے؟(۲)کیا یہ بات صحیح ہے کہ ایک
انسان کی آبائی پراپرٹی (والد، ماں، دادا، دادی و غیرہ سے حاصل شدہ) سختی سے شرعی
قانون کے مطابق وارثوں کے درمیان تقسیم کی جائے گی؟یہ کسی کو (جائز وارثوں کو چھوڑ
کر ) نہیں دی جاسکتی ہے؟ (۳)کیا
کوئی ایسی کتاب ہے جو کہ ان مضامین پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہو؟
(۱)زبانی
ہبہ کا کیا تصور ہے؟ اس کی شرط اولین کیا ہے؟ یہ سسٹم کیوں متعارف کرایا گیا ہے؟(۲)کیا یہ بات صحیح ہے کہ ایک
انسان کی آبائی پراپرٹی (والد، ماں، دادا، دادی و غیرہ سے حاصل شدہ) سختی سے شرعی
قانون کے مطابق وارثوں کے درمیان تقسیم کی جائے گی؟یہ کسی کو (جائز وارثوں کو چھوڑ
کر ) نہیں دی جاسکتی ہے؟ (۳)کیا
کوئی ایسی کتاب ہے جو کہ ان مضامین پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہو؟
جواب نمبر: 12538
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 702=527/ل
(۱) ہبہ تام ہونے کی لیے ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا، شیٴ موہوب کو موہوب لہ کے حوالہ کردے اور اس پر اس کو مالک و قابض بنادے اور خود اس سے لاتعلق ہوجائے، صرف زبانی ہبہ کرنے سے جب کہ اس کے ساتھ قبضہ نہ کرایا گیا ہو، ہبہ تام نہیں ہوتا۔
(۲) زندگی میں آدمی اپنے مال کا خود مختار ہوتا ہے، اگر کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے لیکن انتقال کے بعد اس کا ترکہ اس کے ورثاء شرعی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، جس کو اس کے ورثاء شرعی کے درمیان تقسیم کیا جائے گا، اور شرعی وارثوں کو چھوڑکر دوسروں کو نہیں دیا جاسکتا ہے۔
(۳) فقہ کی تمام کتابوں میں اس پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے، فتاویٰ عالم گیری اگر آپ کے یہاں ملتی ہو تو اسے لے کر اس کا مطالعہ کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند