• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 68513

    عنوان: جھوٹی قسم کھانے کا کیا کفارہ ہے؟

    سوال: ایک مرتبہ میرے ایک دوست نے مجھ سے میرے پیسے کے بارے میں پوچھا تو میں نے اپنے پیسے کو چھپانے کے لئے اللہ کی قسم کھاکر جھوٹا جواب دیا ، میری قسم کھانے سے اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں نے اللہ کے نام سے قسم کھا کر جھوٹ بات کہی ہے۔ برا ہ کرم، بتائیں کہ مجھے کیا کفارہ دینا چاہئے؟

    جواب نمبر: 68513

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1243-1215/N=11/1437

    مذہب اسلام میں جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ اور حرام وناجائز ہے خواہ جھوٹی قسم کی وجہ سے دوسرے کی حق تلفی یا دوسرے کا کوئی نقصان ہو یا نہ ہو؛ اس لیے آپ نے اپنے کسی دوست سے پیسے چھپانے کے لیے جو جھوٹی قسم کھائی تو اگرچہ اس قسم کی وجہ سے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا تب بھی آپ نے ایک ناجائز کام کیا، آپ کو پیسے چھپانے کے لیے کوئی اور تدبیر اختیار کرنی چاہئے تھی، جس میں گناہ بھی نہ ہوتا اور آپ کا مقصد بھی پورا ہوجاتا؛ کیوں کہ سخت اضطرار ومجبوری کے بغیر جھوٹی قسم مباح نہیں، البتہ اس طرح کی قسموں میں کوئی کفارہ نہیں ہوتا، صرف توبہ واستغفار ہے؛ لہٰذا آپ سچی پکی توبہ اور استغفار کریں اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے سخت پرہیز کریں، اگر آپ سچی پکی توبہ کریں گے تو انشاء اللہ آپ کا گناہ معاف ہوجائے گا اور آخرت میں اس جھوٹی قسم پر کوئی موٴاخذہ نہ ہوگا، حدیث پاک میں ہے: جس نے گناہ کے بعد سچی پکی توبہ کرلی تو وہ ایسا ہوجاتا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں، وھي أي: الیمین باللہ تعالی ……غموس تغمسہ فی الإثم ثم فی النار، وھي کبیرة مطلقاً … إن حلف علی کاذب عمداً ……کو اللہ ما فعلت کذ عالماً بفعلہ أو … کواللہ ما لہ علي ألف عالماً بخلافہ وواللہ إنہ بکر عالماً بأنہ غیرہ …… ویأثم بھا فتلزمہ التوبة (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الأیمان ۵: ۴۷۴ - ۴۷۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ: ”وھي کبیرة مطلقاً“ : أي: اقتطع بھا حق مسلم أو لا الخ (رد المحتار) ، قولہ: ”ویأثم بھا“ أي: إثما عظیماً کما فی الحاوی القدسي (المصدر السابق) ، قولہ: ”فتلزمہ التوبہ“ إذ لا کفارة فی الغموس یرتفع بھا الإثم فتعینت التوبة للتخلص منہ (المصدر السابق) ، عن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ“ رواہ ابن ماجة والبیھقي في شعب الإیمان الخ (مشکاة المصابیح، باب الاستغفاروالتوبة، الفصل الثالث، ص ۲۰۶) ، والحدیث حسنہ ابن حجر العسقلاني کما فی المقاصد الحسنة للسخاوي۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند