• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 62024

    عنوان: اگر کوئی آپ سے ایس ایم ایس پہ آپ سے جبرا ًکسی کام کے لیے قرآن اٹھائے ، آپ کی دل سے نیت نہ ہو اور آپ اس کی ہاں میں ہاں ملا دیں دل سے راضی نہ ہو اور اس قت آپ کی کم عمر بھی ہو اور آپ دل میں نیت رکھیں کہ جب تک اس سے ربطہ ہے و کام نہیں کروں گی اور اب اس سے رابطہ ختم ہوچکا ہے تو اس کے بارے میں کا حکم ہے؟بعد میں وہ کام کرلیا جائے جس پر اس نے قرآن اٹھایا تھا تو کیا حکم ہے؟

    سوال: اگر کوئی آپ سے ایس ایم ایس پہ آپ سے جبرا ًکسی کام کے لیے قرآن اٹھائے ، آپ کی دل سے نیت نہ ہو اور آپ اس کی ہاں میں ہاں ملا دیں دل سے راضی نہ ہو اور اس قت آپ کی کم عمر بھی ہو اور آپ دل میں نیت رکھیں کہ جب تک اس سے ربطہ ہے و کام نہیں کروں گی اور اب اس سے رابطہ ختم ہوچکا ہے تو اس کے بارے میں کا حکم ہے؟بعد میں وہ کام کرلیا جائے جس پر اس نے قرآن اٹھایا تھا تو کیا حکم ہے؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 62024

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 12-131/Sn=2/1437-U آپ کا سوال کچھ غیر واضح ہے، اس میں یہ ذکر نہیں کہ آپ نے قرآن اٹھاکر کس بات کا عہد کیا؟ آپ کے ساتھ ”جبر کرنے“ کی کیا صورت ہوئی؟ آپ کی عمر اس وقت کتنی تھی آپ بالغہ تھیں یا نابالغہ؟ ان باتوں کی وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا کوئی حتمی حکم لکھا جاسکتا ہے۔ باقی قرآن اٹھانے کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ اگر کوئی بالغ شخص قرآن کی قسم کھاکر یا قرآن ہاتھ میں لے کر کوئی عہد کرے تو اس سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، خلاف کرنے کی صورت میں ”کفارہ“ ادا کرنا ہوگا؛ البتہ اگر کسی واجب کام کے نہ کرنے یا کسی گناہ کے کرنے کی قسم کھائی تو ایسی صورت میں قسم توڑکر اس کے خلاف کرنا ضروری ہے، بعد میں قسم کا کفارہ دے دے، اس طرح اگر ناپسندیدہ کام کرنے یا پسندیدہ کام کے ترک کی قسم کھائی تو بھی قسم توڑدینا چاہیے، ان صورتو میں قسم توڑنے پر کوئی گناہ نہیں ہے؛ بلکہ اول صورت میں ضروری اور دوسری صورت میں مستحب ہے۔ کفارہ بہرحال دونوں صورتوں میں واجب ہے، کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلایا جائے یا دس مسکینوں کو کپڑا دیا جائے، اگر ان میں سے کسی پر قادر نہیں ہے تو دس روزے رکھنا ضروری ہے۔ قال المال: ولا یخفی أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فیکون عینًا (درمختار مع الشامي: ۵/۴۸۴، ط: زکریا) اور مجمع النہر میں ہے: وقال العیني لو حلف بالمصحف أو وضع یدہ علیہ أو قال: وحق ہذا فہو یمین ولا سیّما في ہذا الزمان الذي کثر فیہ الحلف بہ (مجمع الأنہر: ۲/۲۷۰، ط: فقیہ الأمت) نیز دیکھیں: فتاوی دارالعلوم: ۱۲/ ۴۴، ۳۵ وغیرہ) وفي الدر المخترا: ․․․ وحاصلہ أن المحلوف علیہ إما فعل أو ترک، وکلّ منہما إما معصیة وہي مسئلة المتن أو واجب کحلفہ لیصلین الظہر الیوم وبرہ فرض أو ہو أولی من غیرہ أو غیرہ أولی منہ کحلفہ علی ترک وطء زوجتہ شہرًا ونحوہ وحنثہ أولی الخ (۵/۵۰۷، درمختار مع الشامي، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند