• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 609124

    عنوان:

    متعدد قسمیں ٹوٹنے پر متعدد کفاروں کا حکم

    سوال:

    اگر کسی پر کئی قسموں کا کفارہ واجب ہو تو وہ کتنے قسموں کا کفارہ دے گا؟ 8 قسموں (جو ٹوٹ گئی) کی تفصیل اور ترتیب مندرجہ ذیل ہے 1 مشت زنی نہیں کرو ں گا (فلاں تا ریخ تک) 2 مشت زنی نہیں کرو ں گا (فلاں تا ریخ تک) 3 مشت زنی نہیں کروں گا (فلاں تا ریخ تک) 4 لڑکی کے ساتھ گناہ نہیں کروں گا (فلاں تا ریخ تک) 5 اور 6 لڑکے کے ساتھ گناہ نہیں کروں گا (فلاں تا ریخ تک) 7 مشت زنی نہیں کروں گا (فلاں تا ریخ تک) 8 لڑکی کے ساتھ گناہ نہیں کروں گا (فلاں تا ریخ تک) درمیان میں ایک قسم اور بھی تھا(جس کا کفارہ روزوں کے شکل میں پورا کرچکا ) جو اب یاد نہیں۔ نیز قسم کھانے والے پر اس دوران جنا ت کے اثرات تھے اور شدید ڈپریشن بھی تھا۔اور وہ گناہ سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے یہ قسم کھاتا تھا۔ قسم اسی ہی ترتیب سے تھی۔

    جواب نمبر: 609124

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 409-88TH-Mulhaqa=7/1443

     صورت مسئولہ میں قسم کھانے والا اگر قسم کھاتے وقت ہوش وحواس میں تھا کہ اُسے زبان سے نکلنے والے الفاظ کا علم تھا تو اگرچہ وہ ڈپریشن وغیرہ میں تھا یا اُس نے قسمیں اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے کھائی تھیں، اُس کی سب قسمیں منعقد ہوگئیں اور خلاف ورزی پر کفارہ واجب ہوگیا، اور چوں کہ مفتی بہ قول کے مطابق قسم کے کفاروں میں تداخل نہیں ہوتا(اختری بہشتی زیور مکمل مدلل، ۳: ۵۳، مسئلہ: ۵، ناشر: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور، امداد الفتاوی، ۲: ۵۴۶، کتاب الأیمان، جواب سوال: ۶۵۶، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند، احسن الفتاوی، ۵: ۴۹۵، ۴۹۶، مطبوعہ: ایچ، ایم سعید کراچی، وغیرہ)؛ لہٰذا شخص مذکور پر قسموں کی تعداد کے مطابق کفارے واجب ہوں گے۔

    فأما إذاکانت یمینہ باللّٰہ تعالٰی فلا یصح نیتہ وعلیہ کفارتان، وقال أبو یوسف رحمہ اللہ: ھذا أحسن ما سمعناہ منہ……کذا في المبسوط (الفتاوی الھندیة، کتاب الأیمان، الباب الثاني في مایکون یمیناً ومالا یکون یمیناً،۲: ۵۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

    وفي البحر عن الخلاصة والتجرید: وتتعدد الکفارة لتعدد الیمین، والمجلس والمجالس سواء، ولو قال: عنیت بالثاني الأول؛ ففي حلفہ باللہ لا یقبل وبحجة أو عمرة یقبل (الدر المختار مع رد المحتار، أول کتاب الأیمان، ۵: ۴۸۶، ۴۸۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۱:۲۵۲، ۲۵۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    فلا یعتمد علی القول بالتداخل؛ بل یعتمد علی ما ذکرہ غیرہ من عدم التداخل حتی یوجد تصحیح لخلافہ ممن یعتد علیہ في نقلہ اھ، ومما یدل لتعددھا ما ذکرہ في الفتح أول الحدود: ”أن کفارة الإفطار المغلَّب فیھا جھةُ العقوبة حتی تداخلت وأن کفارة الأیمان المغلَّب فیھا جھةُ العبادة“ أھ۔ وفي الھندیة: ”إذا قال الرجل: واللہ والرحمن لا أفعل کذا کانا یمینین حتی إذا حنث کان علیہ کفارتان في ظاھر الروایة“ اھ، فعلم أن التعدد ھو ظاہر الروایة (التحریر المختار للرافعي، ۲: ۱۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند