• عبادات >> قسم و نذر

    سوال نمبر: 155040

    عنوان: اپنے بیٹے کی نوکری کے متعلق نذر ماننے سے نذر واجب ہوگی یا نہیں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں زید کی والدہ نے اپنے بیٹے کے متعلق نذر مانی کے اگر میرے بیٹے کی فلاں جگہ نوکری لگ گئی تو اس کی پہلی تنخواہ فلاں متعین مدرسہ کو دیں گے اب زید کی نوکری بھی اسی جگہ ﴿ملیٹری ﴾میں لگ گئی اور تنخواہ مہانہ ۲۳۰۰۰ ہزار روپہ کے حساب سے ملنے لگے گھر سے دور ہونے کی وجہ سے ۱۰ مہینے نوکری کر کے چھوڑ دی اہل خانہ کی اتفاق رائے سے ، نوکری چھوڑنے کے سبب گورمینٹ نے تین مہینے کی تنخواہ واپس لے لی، اب اس میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کی والدہ کی اپنے بیٹے کے متعلق نذر ماننے سے نذد واجب ہوگی یا نہیں؟ اور اگر ہوگی تو کس پر، ویسے گھر کا فنڈ الگ الگ نہیں ہے اور مدرسہ متعین کرنے سے متعین ہوگا یا نہیں؟ بالتفصیل جواب دیکر ممنون و مشکور ہوں۔

    جواب نمبر: 155040

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:20-47/M=2/1439

    صورت مسئولہ میں جس وقت زید کی والدہ نے یہ نذر مانی تھی اس وقت زید اس نذر سے راضی تھا یا نہیں، اگر راضی نہیں تھا تو یہ نذر صحیح نہیں ہوئی اور اس کی والدہ پر کچھ واجب بھی نہیں ہوگا، اور اگر زید اس سے راضی تھا تو اس کی پہلی تنخواہ کو صدقہ کرنا ضروری ہے چاہے متعینہ مدرسے میں دی جائے یا اس کے علاوہ دوسرے مدرسے میں یا کسی فقیر کو، نیز یکبارگی پوری رقم کا صدقہ کرنا بھی ضروری نہیں بلکہ تدریجاً ”تھوڑی تھوڑی رقم“ بھی صدقہ کرسکتے ہیں؛ لیکن بہرحال پہلی پوری تنخواہ کا صدقہ کرنا ضروری ہوگا وکذا یظہر منہ أنہ لا یتعین فیہ المکان والدرہم والفقیر، لأن التعلیق إنما أثر في انعقاد السببیة فقلط․․․ أما المکان والدراہم والفقیر فہي باقیة علی الأصل من عدم التعیین (رد المحتار: ۵/ ۵۲۴ط: زکریا دیوبند) مستفاد از ”فتاوی دارالعلوم دیوبند“ ص: ۱۰۱/ ۱۰۷/ مکتبہ دارالعلوم دیوبند۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند