• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 69265

    عنوان: آپس میں رضامندی کے ساتھ نکاح کیا، پانچ گواہوں کی موجودگی تو کیا نکاح درست ہوگیا؟

    سوال: سنبل نے جنید سے محبت کی اس کے بعد آپس میں رضامندی کے ساتھ نکاح کیا، پانچ گواہوں کی موجودگی میں اور دونوں لوگوں کے نکاح نامہ اور اسٹام پیپر پر دستخط بھی موجود ہیں۔ تو کیا ایسی صورت میں نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟

    جواب نمبر: 69265

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1040-1082/N=10/1437 اگر سنبل عاقلہ بالغہ ہے ، یعنی: نابالغہ یا مجنونہ نہیں ہے اور آپ (: محمد جنید ) نے اس سے نکاح با قاعدہ شرعی طریقہ پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں کیا ہے تو آپ کا نکاح شرعاً درست ہوگیا، وہ آپ کی بیوی ہوگئی اور آپ اس کے شوہر ۔ لیکن کسی کی بیٹی یا بہن سے اس کے ولی وسرپرست کی اجازت ومرضی اور اسے کوئی اطلاع کیے بغیر نکاح کرنا اور خود لڑکی کا اپنے ولی وسرپرست کی اجازت ورضامندی اور اسے اطلاع کیے بغیر اپنا نکاح کرلینا شریعت کی نظر میں ہرگز پسندیدہ نہیں، جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ شرعاً وعرفاً قابل مذمت ہیں اور معاشرہ کا ماحول خراب کرنے والے ہیں اور اجنبی لڑکا اور لڑکی کی آپسی ناجائز محبت تو شریعت میں حرام ہے۔ اور اگر صورت مسئولہ میں سنبل اور آپ کی برادری الگ الگ ہے اور آپ اور اس میں برادری کے اعتبار سے کفاء ت نہیں ہے ، یعنی: دونوں میں برادری کے اعتبار سے اس درجہ فرق ہے کہ عرف میں یہ نکاح محض برادری کے فرق کی وجہ سے لڑکی کے اولیا کے لیے باعث ننگ وعار ہے تو لڑکی کے اولیا شرعی پنچایت کے ذریعے یہ نکاح فسخ کراسکتے ہیں، انھیں شرعاً اس کا حق حاصل ہے ۔ البتہ جب تک نکاح فسخ نہ ہو یا آپ طلاق دے کر سنبل کو اپنی زوجیت سے خارج نہ کردیں اور عدت واجب ہونے کی صورت میں عدت نہ گذرجائے ، سنبل کا نکاح کسی اور مرد سے ہرگز جائز نہیں؛ کیوں کہ مذہب اسلام میں شادی شدہ لڑکی یا عورت کا نکاح طلاق وغیرہ سے پہلے کسی اور مرد سے نہیں ہوسکتا ، قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ اس کی حرمت آئی ہے، ( فنفذ نکاح حرة مکلفة بلا ) رضا (ولی ) ، والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف في نفسہ وما لا فلا ( ولہ) أي: للولي ( إذا کان عصبة) …… (الاعتراض في غیر الکفء ) فیفسخہ القاضي (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الولي ۴: ۱۵۵- ۱۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قال اللہ تعالی: والمحصنت من النساء الآیة (سورہ نسا، آیت: ۲۴) ، ومنہا أن لا تکون منکوحة الغیر لقولہ تعالیٰ: ﴿والمحصنت من النساء﴾، وہي ذوات الأزواج (بدائع الصنائع ۲: ۵۴۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، أما نکاح منکوحة الغیر …فلم یقل أحد بجوازہ، فلم ینعقد أصلاً (رد المحتار، کتاب النکاح، باب المھر۴: ۲۷۴) ، لا یجوز للرجل أن یتزوج زوجة غیرہ … کذا فی السراج الوھاج (الفتاوی الھندیة ۱: ۲۸۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند