• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 66720

    عنوان: نکاح ہونے کے بعد ساس مثل ماں کے اور سسر مثل باپ کے ہوجاتے ہیں

    سوال: کیا کہتے ہیں علماء دین؟ بہو پر ساس اور سسر کو کیا حق ہے ؟ کیا یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کے والدین سے رشتہ نہ رکو؟ کیا یہ کہ سکتے ہیں کہ ان کے والدین کو فون بھی نہ کرو؟ کیا یہ کہ سکتے ہیں کہ شوہر کی کوئی چیز پر حق نہیں؟ کیا بہو کے گھر والوں کو جادو گر کہ سکتے ہیں؟کئی چیز شوہر اپنی بیوی کو دلانا چاہے تو اس کو کسی کی اجازت لینی ہوگی؟ یہ سوال اسئے کررہا ہوں خود اپنے گھر میں ہورہا ہے . میری شادی ہو کر دس ماں ہوگئے 5 . یا 6 ماں سے گہر میں بس تنشن ہے اسئے کہ چند ماہ قبل میرے والد نے میرے سسر کو ایک خط بچے جب اس خط کا جواب آیا تو ہمارے گھر کا ماحول بدل گیا اور میری بیوی کو اپنے والدین سے بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں. صرف ماں سے ماہ میں ایک بار وہ بہی میک میں. اور والد سے چار ماہ ہو گئے بات نہیں کروائے . اور کہتے ہیں کہ میری کیء چیز پر میری بیوی کا حق نہیں ہے . جیسے کہ میرے فون سے بات کرنے نہیں دیتے . میرے لیے کچھ بھی پکانے نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ میرے سسرال والوں نے جادو کردیا ہے کل میری بیوی کا بھاء انڈیا سے آئے ہیں مٹھائی بہی لئے تو کسی کو کہانے نہیں دیئے .اسلئے کہ کہتے ہیں کہ اس میں جادو کیئے ہوں گے . ایسی صورت میں کچھ بولوں تو گھر میں وبال مچجاتا ہے . جیسے کہ میری بیوی اور ان کے گھر والوں کو گندے گندے الفاظ استعمال کرتے ہیں. اور جب میں کچھ نہیں بولوں تو بہی میری بیوی کو کہتے ہیں کہ انکے والدین سے رشتہ نہ رکو اس صورت میں شریعت کیا کہ تھی ہے ؟ کیا شادی کے چند ماں بعد اس قسم کا خط لکھنا چاہیے تھا یا نہیں جو بھی یہ کر رہے ہیں شریعت اس کی اجازت دیتی ہے؟ اس صورت میں شریعت مجھے کیا کہ تھی ہے؟

    جواب نمبر: 66720

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 629-629/B=8/1437 نکاح ہونے کے بعد ساس مثل ماں کے اور سسر مثل باپ کے ہوجاتے ہیں ۔ ایک توحقیقی اور نسبی باپ ہوتا ہے ایک مجازی باپ ہوگا۔ ساس سسر مجازی ماں باپ ہوجاتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے جیساکہ ماں باپ کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے ، ان لوگوں سے حسد و بغض رکھنا، ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، ایک دوسرے کے ساتھ بدگمانی کرنا، یہ مروت ، انسانیت ، شرافت کے قطعی خلاف ہے ۔ یہ سب باتیں دل سے نکال دینی چاہئے ۔ کسی مسلمان کی طرف سے دل میں کھوٹ رکھنا بہت گناہ کی بات ہے ۔ اس سے ہر وقت لڑائی جھگڑا ہوتا رہے گا۔ دماغ میں ہر وقت ٹینشن رہے گا صحت برباد ہو جائیگی ، دین و دنیا دونوں برباد ہوجائیں گے ، جس طرح کی زندگی آپ لوگ گذار رہے ہیں ۔ یہ مسلمانوں کی زندگی نہیں ہے ، یہ بہت گرے ہوئے کمینے لوگوں کا طریقہ ہے ۔ آپ لوگ اپنی بدگمانیوں کو دور کریں اور ایک دوسرے سے معافی مانگیں اور میل محبت کے ساتھ رہیں ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند