معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 66598
جواب نمبر: 66598
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1002-1002/M=10/1437
جب لڑکا یا لڑکی بالغ ہوجائے تو باپ دادا کی ولایت اجبار اس پر سے ختم ہوجاتی ہے یعنی وہ اپنی مرضی سے نکاح کرسکتے ہیں اگرچہ ولی کی اجازت ومرضی سے کرنا بہتر اور پسندیدہ ہے، کسی حدیث کامفہوم مطلق ہوتو اس کو دوسری مقید روایات کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے مسلم شریف کی روایت میں ہے: ”الأیم أحق بنفسہا من ولیہا والبکر تستاذن فی نفسہا وإذنہا صماتہا“ اس میں ایّم کا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے بغیر شوہر والی بالغہ لڑکی خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ۔ ایک روایت میں ہے کہ: ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے باپ نے میرا نکاح ایک ایسے شخص سے کردیا ہے جو مجھے پسند نہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا نکاح نہیں ہوا، جاوٴ جس سے چاہو نکاح کرلو۔ عن أبي سلمة ”جاء ت امرأة إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت: إن أبی انکحنی رجلاً وأنا کارہة فقال لأبیہا لانکاح لک، اذہبی فانکحي من شئت أخرجہ سعید بن منصور وہذا مرسل جید (درایة) (اعلاء السنن ۱۱/۶۶) اور فقہاء کرام کی عبارتوں میں بھی بالغ و نابالغ کی قید صاف مذکور ہے: لا تجبر البالغة البکر علی النکاح لانقطاع الولایہ بالبلوغ․ (شامی کتاب النکاح باب الولی ۴/۱۵۹ زکریا دیوبند) لأن ولایة الاجبار ثابتة علی الصغیرة دون البالغة․ (مجمع الانہر ۱/۳۳۳)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند