معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 66550
جواب نمبر: 66550
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1188-1162/L=11/1437 خواتین کے لیے جدید علوم تعلیم مثلاً: تحریر و کتابت، حساب دانی، کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم بذات خود جائز ہے، لیکن اس کے لیے چند شرائط ہیں، وہ شرطیں جہاں پائی جائیں اور ان کی پابندی کی جائے وہاں جائز ہے، اور جہاں وہ شرطیں نہ پائیں جائیں وہاں جائز نہیں ہے۔ وہ شرطیں ذیل میں ملاحظہ ہوں: (۱) خواتین کی تعلیم گاہیں صرف خواتین کے لیے مخصوص ہوں، مخلوط تعلیم نہ ہو اور وہاں مردوں کا آنا جانا اور عمل و دخل ہرگز نہ ہو۔ (۲) ان تعلیم گاہوں تک خواتین کے آنے جانے کا پردہ کے ساتھ ایسا محفوظ انتظام ہوکہ کسی مرحلہ میں فتنہ کا کوئی اندیشہ نہ ہو۔ (۳) تعلیم و تربیت کے لئے نیک کردار اور پاک دامن خواتین کا تقرر ہو، اگر ایسی معلمات نہ مل سکیں تو درجہ مجبوری میں نیک و صالح اور قابل اعتماد مردوں کو مقرر کیا جائے، جو پس پردہ خواتین کو تعلیم دیں، لیکن ان کی بھی کڑی نگرانی کی جائے۔ دور حاضر میں خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے عموماً ان میں یہ شرطیں مفقود ہیں، ان اسکول کالجوں میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کا کھلا اختلاط ہوتا ہے، اس لیے ایسے بے حجابانہ اور اختلاط کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ ویسے بھی لڑکیوں کا معاملہ نازک ہوتا ہے، ان کو اعلی عصری تعلیم دلانا بالخصوص اس پرفتن ماحول میں کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، بالعموم لڑکیاں اعلی عصری تعلیم حاصل کرکے دیندار باقی نہیں رہ پاتیں، بلکہ ان کے اندر ایک طرح کی آزادی پیدا ہوجاتی ہے جو ازدواجی زندگی میں بھی خلل کا باعث ہے، اس لیے محض اچھی جگہ رشتہ کا ہوجانا کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ لڑکی جب شادی کے لائق ہو جائے تو اس کی شادی کردینی چاہیے، محض عصری تعلیم کی وجہ سے شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ: جس کی اولاد پیدا ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھی تعلیم دے، پھر جب وہ بالغ ہوجائے اس کا نکاح کردے، اگر بالغ ہوجائے اور اس کا نکاح نہ کرے، پھر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے، تو اس کا گناہ (سبب کے درجہ میں) باپ پر ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند