• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 65433

    عنوان: شادی بیاہ کے بارے میں چند سوالات

    سوال: سوال: کیا فرماتے ھیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: براہ مہربانی ہر سوال کا علیحدہ جواب تحریر فرمائیں۔ ۔ اگر لڑکے اور لڑکی والے شادی چند ماہ بعد کرنا چاہتے ہوں تو کیا منگنی کی جا سکتی ہے تا کہ عزیز اقارب کو دونوں کے رشتہ کی اطلاع ہو جائے ؟ ۲۔ کیا شادی سے پہلے سسرال والے مختلف تہواروں پر (یعنی عیدین پر) یا ویسے ہی اپنی بہو یا داماد کو تحائف دے سکتے ہیں؟ ۳۔ کیا شادی سے قبل بغیر کسی رسم کے رشتہ دار خواتین اور لڑکیاں دلہن کو اور آپس میں ایک دوسرے کو مہندی لگا سکتی ہیں؟ ۴۔ کیا شادی والے گھر میں لڑکیاں صرف خواتین کی محفل میں ڈف کے ساتھ گیت گا سکتی ہیں اور رقص کر سکتی ہیں؟ ۵۔ کیا دلہن کے والدین بغیر سسرال والوں کے مطالبہ کے اپنی بیٹی کے ساتھ صلہ رحمی کے جزبہ سے اپنی حیثیت کے مطابق جہیز دے سکتے ہیں؟ ۶۔ حق مہر کی رقم کا تعین دلہن یا دلہن کے ولی یا دولہا یا دولہا کے باپ میں سے کس کو کرنا چاہیے ؟ ۷۔ آج کل کے دور میں شرعی حق مہر ڈالروں میں کتنا بنتا ہے ؟ ۸۔ آج کل کے دور میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ حق مہر کی رقم ڈالروں میں کتنی بنتی ہے ؟ ۹۔ کیا دلہن شرعی پردے کی رعایت کرتے ہوئے رخصتی کے موقع پر بن سنور سکتی ہے یعنی میک اپ وغیرہ کر سکتی ہے ؟ ۱۰۔ کیا دلہن والے اپنی بیٹی کی شادی پر شادی کی تشہیر کے لئے بغیر غلو کے اپنے رشتہ داروں کی دعوت کا اہتمام کر سکتے ہیں جس میں نیوتہ وغیرہ کی ممانعت کی جائے ؟ جزاک اللہ خیر و احسن الجزا

    جواب نمبر: 65433

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 740-823/Sd=10/1437 مروجہ منگنی کا شرعا کوئی ثبوت نہیں ہے ؛ تاہم اگر بلاکسی اہتمام وانتظام کے شادی کی تاریخ وغیرہ طے کرنے کے لیے کچھ اہل خانہ یا اعزاء جمع ہوجائیں، توشرعا اس میں مضائقہ بھی نہیں۔ (۲) خوشی کے طور پر سسرال والوں کا عید کے موقع پر بہو یا داماد کو تحائف دینا ناجائز نہیں ہے؛ لیکن اس کو ضروری نہ سمجھا جائے اور رسم بھی نہ بنایا جائے۔ فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعة رسائل اللکنوي / مباحة الفکر في الجہر بالذکر ۳/۳۴، ڈابھیل) (۳) شادی سے پہلے رشتہ دار خواتین اور دیگر لڑکیاں دلہن کو اور آپس میں جو مہندی لگاتی ہیں، آج کل اُس نے ایک رسم کی شکل اختیار کر لی، اس موقع پر اور بھی خلافِ شرع چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے، ا س لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ نوٹ: ایک استفتاء میں تین سے زائد سوالات نہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند