• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 64939

    عنوان: بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں مباشرت کرنے سے کیا نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

    سوال: (۱) اگر غلطی سے بیوی کی دبر میں مباشرت کر لی جائے تو کیا نکاح ٹوٹ جاتا ہے ؟ (۲) بیوی سے دور ہوں یعنی پردیس میں اور ہمبستری نہ کر سکیں تو کیا بیوی سے تنہائی میں ویڈیو سیکس کر سکتے ہیں یا ہاتھ سے خود کو بیوی کا سوچ کے استعمال کر سکتے ہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 64939

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 675-700/N=7/1437 (۱) : بیوی کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں صحبت کرنے سے نکاح تو نہیں ٹوٹتا، البتہ بالقصد وارادہ بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں صحبت کرنا سخت حرام وناجائز ہے، احادیث میں اس پر مختلف وعیدیں وارد ہوئی ہیں، پس ایسی صورت میں دونوں پر صدق دل سے توبہ واستغفار لازم ہوگا۔ قال اللہ تعالی: ﴿نساوٴکم حرث لکم فأتوا حرثکم أنی شئتم﴾ (سورہ بقرہ، آیت: ۲۲۳) ، عن ابن عباس وأبي ھریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”ملعون من عمل عمل قوم لوط“ ، رواہ رزین، وعن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”لا ینظر اللہ عز وجل إلی رجل أتی رجلاً أو امرأة في دبرھا“ رواہ الترمذي (مشکوة شریف، ص ۳۱۳، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند) ، اتفق الفقہاء علی أن اللواط محرم وأنہ من أغلظ الفواحش وقد ذمہ اللہ تعالی فی کتابہ الکریم وعاب علی فعلہ فقال: ولوطا إذ قال لقومہ أتأتون الفاحشة الآیة (سورة الأعراف، ۸۰، ۸۱) وقال تعالی: أتأتون الذکران الآیة (سورة الشعراء، ۱۶۵، ۱۶۶) وقد ذمہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم بقولہ: لعن اللہ من عمل عمل قوم لوط ولعن اللہ من عمل عمل قوم لوط، ولعن اللہ من عمل عمل قوم لوط (أخرجہ أحمد والحاکم من حدیث ابن عباس وصححہ الحاکم ووافقہ الذھبي) (موسوعہ فقہیہ ۳۵: ۳۴۰) ، وفی الأشباہ: حرمتھا عقلیہ فلا وجود لھا فی الجنة، ……… وفی البحر: حرمتھا أشد من الزنا لحرمتھا عقلاً وشرعاً وطبعاً (در مختار مع شامی ۶: ۳۹، ۴۲، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ۔ (۲) : اس صورت میں یا تو بیوی کو اپنے پاس بلالیا جائے اور اگر یہ مشکل ودشوار ہو توفون پر سیکس کی باتیں کم از کم کی جائیں اور اگر شہوت کا تقاضہ زیادہ ہو تو کثرت سے روزے رکھ کر اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے، باقی تنہائی میں بیوی سے ویڈیو سیکس کرنا یا ہاتھ سے منی خارج کرنا درست نہیں، نیز یہ طبی اعتبار سے بھی نقصان دہ ہے؛ لہٰذا اس سے پرہیز کیا جائے۔ اور اگر اسباب شہوت سے بچنے کے باوجود فطری طور پر شہوت کا سخت تقاضہ ہو اور اس کی وجہ سے ابتلائے معصیت کا قوی اندیشہ ہو اور اس سے بچنے کے لیے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں بوجہ مجبوری گناہ سے بچنے کے لیے ہاتھ سے منی خارج کرنے کی گنجائش ہوگی، ویسے حتی الامکان اس سے بچنے کی بھر پور کوشش کی جائے؛ کیوں کہ یہ عمل ایک دو بار کرلینے سے عام طور پر لوگوں کو اس کی عادت ہوجاتی ہے اور یہ طبی اعتبار سے سخت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر بار بارشدت شہوت ہوتی ہو اور آدمی مجبور جیسا ہوجاتا ہو تو بیوی کو ساتھ رکھنے یا وطن ہی میں کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، نیز اس میں بیوی کی عفت وپاک دامنی کی بھی حفاظت ہے۔ ولا یحل - أي: الاستمناء بالکف- لہ إن قصد بہ قضاء الشھوة لقولہ تعالی: والذیبن ھم لفروجھم حافظون إلا علی أزواجھم أو ما ملکت أیمانھم إلی أن قال: فمن ابتغی وراء ذلک فأولئک ھم العادون أي: الظالمون المتجاوزون، فلم یبح الاستمتاع إلا بھما فیحرم الاستمتاع بالکف الخ (تبیین الحقائق ۱: ۳۲۳، مطبوعہ: مکتبہ امدادیہ ملتان) ، ولا یحل الاستمناء بالکف، ذکرالمشایخ فیہ أنہ علیہ السلام قال: ناکح الید ملعون (فتح القدیر، کتاب الصوم) ، والاستمناء حرام وفیہ التعزیر (الجوہرة النیرة ۲: ۲۴۵، مطبوعہ: دار الکتاب دیوبند) ، وھل یحل الاستمناء بالکف خارج رمضان؟ إن أراد الشھوة لا یحل لقولہ علیہ السکام: ناکح الید ملعون، وإن أراد تسکین الشھوة یرجی أن لا یکون علیہ وبال کذا فی الولوالجیة (البحر الرائق ۲: ۴۷۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) ، الشھوة المفرطة الشاغلة للقلب وکان عزبا لازوجة لہ ولا أمة أو کان إلا أنہ لا یقدر علی الوصول إلیھا لعذر کذافی السراج الوھاج (منحة الخالق علی البحر الرائق ۲: ۴۷۵، ۴۷۶ زکریا، شامی ۳: ۳۷۱ زکریا) ، نیز آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ (۸: ۵۲۸ - ۵۳۳، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند) اور احسن الفتاوی (۸: ۲۴۹، مطبوعہ: ایچ، ایم، سعید، کراچی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند