• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 64275

    عنوان: فون پر اللہ کو گواہ بنا کر نکاح کرنا؟

    سوال: میں ایک لڑکی کو پسند کرتاتھا اور وہ بھی مجھے پسند کرتی تھی تو ہم دونوں ایک دن فون پہ اللہ کو گواہ بنا کر ایک دوسرے سے نکاح کیا نام لے کر کہ کیا تم نے مجھے شوہر بننے کے حق میں قبول کیا ؟ اور ایسے ہی اس نے بھی مجھے کہا اور ہم نے تین بار قبول کہا ، اور اکثر ہم ایسے ہی قبول ہے تین بار کہہ دیتے تھے ، اب کسی وجہ سے میری اس سے شادی نہیں ہوپارہی ہے اور اس کی کہیں اور جگہ بات پکی ہوجائے گی تو کیا میں اسے طلاق دو ں یا شریعت کے حساب سے یہ نکاح نہیں ہوا، مجھے وہم ہورہا ہے کہ کہیں اس کی زندگی خراب نہ ہوجائے اور اگر طلاق دی گئی تو کیا اس کو عدت گذارنا ضروری ہوگا ؟ براہ کرم،جواب دیں۔

    جواب نمبر: 64275

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 688-708/N=7/1437 اگر کوئی لڑکا اور لڑکی آپس میں فون پر یا آمنے سامنے ایک دوسرے کو قبول کرلیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو محض اس طرح ایک دوسرے کو قبول کرنے سے دونوں کے درمیان ہرگز نکاح منعقد نہ ہوگا؛ بلکہ دونوں بدستور ایک دوسرے کے لیے اجنبی رہیں گے اور ان کے درمیان ازدواجی تعلق حرام ہوگا؛ اس لیے صورت مسئولہ میں اگر آپ نے کسی لڑکی کو گواہوں کی عدم موجودگی میں قبول کرلیا اور اس نے بھی آپ کو قبول کرلیا تو از روئے شرع آپ کا اس سے نکاح نہیں ہوا، البتہ اگر آپ نے اس طرح ایک دوسرے کو قبول کرنے کے بعد اس سے ازدواجی تعلق قائم کیا، یعنی: صحبت کی تو اب آپ اس سے فوراً الگ ہوجائیں اوراس سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہ رکھیں اوراس صورت میں آپ اسے مہر مثل بھی ادا کریں، البتہ مہر مثل مقرر کردہ مہر سے زیادہ نہ دیا جائے گا، اور جس وقت آپ اس سے الگ ہوں گے، اسے اس وقت سے عدت بھی گذارنی ہوگی، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قولہ: لا نکاح إلا ببینة (سنن الترمذي ۱: ۱۴۰، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ، وشرط حضور شاہدین حرین أو حر وحرتین مکلفین سامعین قولھما معاً علی الأصح فاھمین أنہ نکاح علی المذھب، بحر، مسلمین الخ (الدر المختار مع رد المحتار ۴: ۸۶- ۹۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، ویجب مھر المثل في نکاح فاسد وھو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة کشھود بالوطء فی القبل لا بغیرہ ……ولم یزد مھر المثل علی المسمی…… ویثبت لکل واحد منھما فسخہ ولو بغیر محضر عن صاحبہ ودخل بھا أولا فی الأصح خروجاً عن المعصیة فلا ینافي وجوبہ بل یجب علی القاضي التفریق بینھما عتجب العدة بعد الوطء لا الخلوة الخ، قولہ: ”بل یجب علی القاضي“ أي: إن لم یتفرقا اھ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند