• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 61419

    عنوان: دوسرى شادى پر مسائل

    سوال: میں نے اپنی بیوی سے کچھ جھوٹ بولے دوسری شادی کرنے کے لئے لیکن پہلے میں نے اسکوں راضی کرنے اور سمجہانے کی بھت کوشش کی کہ وہ راضی ہوجائے دوسری شادی کہ لئے ۔اور جب میں اس سے پوچھتا تھا کہ اگر میں نے دوسری شادی کی تو تم مجھے چھوڑوں گی تو نہی تو اسنے کی مرتبہ قسم کھاء کہ میں اپکو نہی چھوڑونگی مجھے اپ سے بھت پیار ہے لیکن اپ کرنا مت اور کبھی کبھی میرے سمجھانے سے راضی بھی ہوء لیکن جب اپنے گھر والوں سے بات کرتی تو پھر اپنا بیان بدل دے تی اور انکار کر دے تی ۔ تو میں نے چھپ کر دوسری شادی کرلی لیکن بات چھپ نہ سکی اور اسکو معلوم ہو گیا اور کی مرتبہ اپنے سسرال والوں اور اپنے کافی رشتے داروں کے سامنے بھی اس بات کا ذکر کرتا تھا کہ میں دوسری شادی کرونگا لیکن اب وہ کھتے ہیں کہ ہم تو مزاق سمجھ رہے تھے ( تو کیا اسطرح شادی کرنے کو بھی دھوکا کہا جائے گا جبکہ علی الاعلان کی مرتبہ ان سب کے سامنے کہا میں دوسری شادی کرونگا) ( میرے جھوٹ یہ ہے جب میری بیوی نے مجھے چھوڑکر جانے کی دہمکی دی اور کہا کہ قران کی قسم کہاو ورنہ میں چھوڑ کر جارہی ہوں۔ کہ اپنے دوسری شادی نہی کی اور نہ کرو گے ۔پہلے تو میں منع کرتا رہا کہ یہ صحیح نہی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کہ لیئے قران کی قسم کہاء جاے لیکن وہ بزد تہی اس بات پر اور کسی صورت نہ مانی تو مجہے کچھ سمجہ نہ آیا اب کیا کرو بیوی کو روکنے کہ لئیے تو میں نے مجبورا بیوی کی محبت میں اور اسکو روکنے کہ لیئے یہ الفاظ کہے کہ میں نے دوسری شادی نہی کی اور نہ کرونگا "ان شائاللہ" اور اس وقت تک دوسری شادی نہی کی تہی ، دوسری بات میں نے یہ کہی میرا دوست آرہا ہے تم کچھ دن اپنی ماں کے گھر چلی جاو (اور حقیقت میں دوست آبھی رہا تھا لیکن وہ صرف ایک دن کیلئے آرہا تہا لیکن پھر کسی وجہ سے نہ آسکا )اور پھر میں نے دوسری بیوی کو اسھی کے کمرے میں رکھا اور اپنی بیوی سے جانے سے پہلے کمرہ بہی صاف کروایا۔ )(نیز گھر میرے والد کا ہے نہ کہ بیوی کا ) تو کیا یہ ظلم کیا اسکے کمرے میں رکھ کر ۳ دن تک ۔ پہر یہ بات پہلی بیوی کو معلوم ہو گء کہ مں نے دوسری شادی کر لی، لیکن مستقبل میں دونوں کو الگ الگ رکھتا یعنی ایک ہفتے بعد سے دونوں کو الگ الگ گھر میں رکھتا اور دونوں میں برابری اور انصاف کرتا ۔اور پاکستانی قانون کے پیش نظر میں نے خالی اسٹاپ پیپر پر اپنی بیوی سے دستخط بہی لے لیا تھا اور اسنے بغیر دیکھے کہ یہ کیا ہے اس پر دستخط کردئے اور جب میں نے کھا دیکھ تو لویہ کیاہے ہو سکتا دوسری شادی کہ لیئے ہو تو اسنے کہا اپ نہی کر سکتے ۔ اب میری پہلی بیوی کے گھر والے یہ کہ رہے ہہ کہ تم کو یہ بات ہماری بیٹی سے شادی کرنے سے پہلے بتانا چاہیئے تھی کہ تم مستقبل میں دوسری شادی کروگے اور تم نے قران کی جہوٹی قسم کہاء ہے اور تم نے دہوکہ دیا ہے اور تم نے پہلی بیوی کے کمرے میں رکھ کر اس پر ظلم کیا ہے اور تم اگے کیسے انصاف کروگے جب تم نے پہلے ہی دن اس پر ظلم کیا ہے ۔ برائے مہربانی مجہے بتائے کیا میں نے اسطرح ظلم کیا ہے اور جسطرح میں نے قسم کہاء تہی وہ قسم ہوء تہی یا نہی اور کیا مجہے اس پر گناہ ملے گا، اور کیا میرے لیئے پہلی شادی سے پہلے یہ بتانا ضروری تہا کہ کہ میں مستقبل میں دوسری شادی کرسکتاہوں ؟اور کیا کسی اور کو مجہے دوسری شادی سے روکنے کا حق حاصل ہے ؟ (اور میں اپنی غلطیوں اور جھوٹ پر مستقل اللہ سے اور ان سب سے معافی بھی مانگ رہا ہو لیکن لوگ معاف کرنے کو تیار نھی ھے اور انکا مطالبہ ہے کہ کسی ایک کو یا ہماری بیٹی کو طلاق دو تو کیا اب انکا یہ مطالبہ سراسر ظلم اور ناانصافی نھیں ہے ۔ جبکہ میں اپنی غلطیوں پر نادم اور پشیمان بہی ہو اور مستقل معافی بھی مانگ رہا ہو ؟ )(اور نیز میری غلطیوں کی وضاحت بھی کی جائے کہ میں نے کیا کیا غلط کیا ہے آیا میں اور لوگ جن باتوں کو غلط اور ظلم کہ رہے ہیں وہ حقیقت میں غلط اور ظلم ہے بھی یا نہی برائے مھر بانی میری غلطیوں کی نشان دہی کریں )، اور اب مسلے کو کسطرح حل کیا جائے ۔مجھے قران وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائں۔

    جواب نمبر: 61419

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1208-1208/M=1/1437-U اگر کوئی شخص دو بیویوں کے درمیان عدل قائم نہیں کرسکتا تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ ایک ہی شادی پر اکتفاء کرے فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء) صورت مسئولہ میں آپ نے دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی کے ادائے حقوق میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور دونوں کے حقوق یکساں طور پر ادا کررہے ہیں تو اس کو ظلم نہیں کہا جاسکتا، پہلی شادی سے پہلے دوسری شادی کے بارے میں بیوی کو بتانا شوہر پر لازم وواجب نہیں لیکن مسئولہ صورت میں اگر آپ کا ارادہ پہلے سے دو شادی کرنے کا تھا اور آپ کو ایسا معلوم یا محسوس ہورہا تھا کہ اگر پہلی بیوی کے گھر والوں کو دوسری شادی کا ارادہ پتہ چل جاتا تو وہ ہرگز مجھ سے اپنی لڑکی کی شادی نہ کرتے تو ایسی صورت میں آپ کو پہلے ہی بتادینا چاہیے تھا، بہرحال اب آپ (شوہر) پر دھوکہ دہی کا الزام لگانا صحیح نہیں اور بلاوجہ طلاق کا مطالبہ بھی درست نہیں، اگر شوہر دونوں بیویوں کے درمیان عدل اور مساوات قائم رکھ رہا ہے تو شوہر گنہ گار نہیں اور مذکورہ جملے سے قسم نہیں ہوئی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند