• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 61295

    عنوان: میرا ایک دوست جو ٹیپو سلطان مسجد (کولکتہ ) میں دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا، ان دونوں کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اپنے اپنے والدین کو شادی کے لئے راضی ہوجائیں ۔ اب اس کے والدین راضی ہیں تو کیا وہ دوبارہ اسی سے نکاح کرسکتاہے؟ اور نہیں تو اس کا کیا راستہ ہے؟ کیوں کہ لوگ اس بارے میں نہیں جانتے ہیں اور وہ نکاح اور ولیمہ کرنا چاہتاہے؟

    سوال: میرا ایک دوست جو ٹیپو سلطان مسجد (کولکتہ ) میں دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا، ان دونوں کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اپنے اپنے والدین کو شادی کے لئے راضی ہوجائیں ۔ اب اس کے والدین راضی ہیں تو کیا وہ دوبارہ اسی سے نکاح کرسکتاہے؟ اور نہیں تو اس کا کیا راستہ ہے؟ کیوں کہ لوگ اس بارے میں نہیں جانتے ہیں اور وہ نکاح اور ولیمہ کرنا چاہتاہے؟

    جواب نمبر: 61295

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1024-996/N=12/1436-U اگر آپ کے دوست نے پہلا نکاح شرعی طریقہ پر شرعی گواہوں کی موجودگی میں کیا ہے تو وہ بلا شبہ صحیح ودرست ہوا، اب دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں، یہ دوسرا نکاح شرعاً لغو ہوگا، لیکن اگر دونوں کے والدین، رشتہ دار اور دوست واحباب وغیرہ کو اس نکاح کی اطلاع نہیں ہے اور شرم وبد نامی وغیرہ کی وجہ سے یہ دونوں اپنے والدین وغیرہ کو اس کی اطلاع کرنا بھی نہیں چاہتے؛ اس لیے یہ دونوں محض ظاہری وفرضی کاروائی کے طور پر دوبارہ نکاح کررہے ہیں تو شرعاً یہ حرام نہیں، البتہ آپ کے دوست کو چاہئے کہ دوسرے نکاح سے پہلے دو لوگوں کو اس بات پر گواہ بنالیں کہ نکاح کی کاروائی محض فرضی طور پر ہے، حقیقت میں ہم دونوں کا نکاح ہوچکا ہے تاکہ سابقہ مہر میں اضافہ نہ ہو، ورنہ اگر اس کی بیوی نے تصدیق نہیں کی تو دوسرے نکاح میں طے کیا جانے والا مہر بھی آپ کے دوست پر قضاء لازم ہوجائے گا اگرچہ دیانتاً لازم نہ ہوگا؛ کیوں کہ دوسرے نکاح کا مقصد بظاہر مہر میں اضافہ کرنا نہیں ہے قال فی البحر (کتاب النکاح، باب المھر۳: ۲۶۱ ط مکتبة زکریا دیوبند) : فالحاصل أنھم اتفقوا علی أن النکاح بعد النکاح لا یصح، وإنما الاختلاف في لزوم المھر اھ، وقال في رد المحتار (کتاب النکاح، باب المھر۲۴۷، ۲۴۸ ط مکتبة زکریا دیوبند) : فی القنیة: جدد للحلال نکاحا بمھر یلزم إن جددہ لأجل الزیادة لا احتیاطاً اھ، أي: لو جددہ لأجل الاحتیاط لاتلزمہ الزیادة بلا نزاع کما فی البزازیة، وینبغي أن یحمل علی ما إذا صدقتہ الزوجة أو أشھد، وإلا فلا یصدق في إرادتہ الاحتیاط کما مر عن الجمھور، أو یحمل علی ما عند اللہ تعالی اھ، نیز امداد الاحکام (۳: ۳۶۷ مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند