• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 61282

    عنوان: شادی کے بعد بیوی شوہر کے تابع ہوتی ہے

    سوال: کیا فر ماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے با رے میں کہ : ۱) :میں اپنی ازدواجی حالات سے پریشان ہوں۔میری بیوی اور اس کے میکے کے لوگ والدین سے الگ لے کر رہنے کے لئے کہ رہے ہیں جب کہ والدین سے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے اور وہ دونوں بوڑھے ہیں ۔والد صاحب کی عمر 69 ہے اور دل کے مریض ہیں۔والدہ کی عمر60 سال ہے اور وہ بھی مریضہ ہیں۔اٹھنا بیٹھنا مشکل ہے ۔ان دونوں کی خدمت شرعا ہمارے اوپر فرض ہے ۔ اب اگر بیوی اور ان کے میکے کے لوگوں کے مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے والدین سے الگ ہو کر رہنے لگوں تو ان دونوں کی خدمت کا مسئلہ ہے ۔نیز ذمہ داریاں اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گی۔میرا کہنا ہے کہ ذرا صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے گھر کی اجتماعیت کو بر قرار رکھ لو اور ان دونوں کی خدمت کا موقع دو ۔کیوں کہ سب ذمہ داریاں میرے ہی اوپر ہیں۔لیکن وہ لوگ بالکل نہیں مان رہے ہیں اور قرآن و حدیث کا مسئلہ سناتے ہیں کہ بیوی اگر کہے کہ الگ لے کر رہو تو الگ رکھنا لازم ہے تو آخیر اس مسئلہ پر عمل کیوں لازم نہیں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ باپ اگر کہے کہ بیوی کو طلاق دے دو تو لڑکے کوچاہئے کہ بیوی کو طلاق طلاق دے دے ؟جیسا کہ ابراہیم  کے حکم سے نیک اولاد حضرت ابراہیم  نے بیوی کو طلاق دیدیا تھا جبکہ غلطی صرف یہ تھی کہ اس خاتون نے حضرت ابراہیم  کی مہمان نوازی نہیں کر سکی تھی۔آج کی عورتیں تو صرف اپنی سہولت کے پیش نظر لڑکے کے والدین کی خدمت کرنا ایک بوجھ جانتی ہیں اور سسرال میں رہتے ہوئے اپنے حقیقی والدین کا خیال زیادہ کرتے ہیں اور سسرال میں بھی اپنے ہی والدین کی ہدایات کے مطابق رہائش رکھتی ہیں۔ایسی صورت حال اور موجودہ زمانے میں اگر ابراہیم  والی حدیث و مسئلہ میں کچھ ماحول پیش نظر ہے اور تاویل ہے تو پھر بیوی اور اس کے خاندان کے مطالبہ الگ کے معاملہ میں کیوں نہیں ہم آہنگ مسئلہ بتایا جاتا ہے کہ والدین کی خدمت بھی ہو اور بیوی کی ضرورت بھی پوری ہو ؟کیا والدین کے حالات کا خیال کئے بغیر ایسا ایک دم و ہر حال میں لازم ہے کہ بیوی محض گھریلو ذمہ داریوں کام کاز میں زیادتی کی وجہ سے اوراپنی سہولت کے پیش نظر الگ رہائش کامطالبہ کرے اور کہے کہ مجھے الگ رکھو، تو بوڑھے والدین کو بیمار چھوڑ کر الگ تھلگ رہنا اور بیوی کے گھر کی ضروریات ،اپنی ضروریات،پھر والدین کی خدمت و ضروریات کی تکمیل کے واسطے شوہر گدہا کی طرح بار برداری کے کام میں پریشان ہو نا ہی مسئلہ ہے ؟ ایسے مرد حضرات کیا کرے ؟بالخصوص اس وقت میں کیا کروں ؟ مجھے بیوی کو الگ لے کر رہنا نہ پسند ہے ناہی حالات صحیح ہیں کہ الگ اخراجات کا بوجھ برداشت کروں ،تو کیابیوی کو طلاق دے کر والدین کی خدمت کروں یا بوڑھے والدین سے الگ تھلگ ہو کر بیوی کے ساتھ عیش و عشرت میں لگ جا وَں ؟جواب میانہ روی کا مدلل ارسال کرکے ممنون فرمائیں۔کرم ہوگا۔

    جواب نمبر: 61282

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1364-1360/B=4/1437-U شادی کے بعد بیوی شوہر کے تابع ہوتی ہے وہ جس حالت اور جہاں رہے بیوی کو اس کے ساتھ تابع ہوکر رہنا ضروری ہے، سسرال والے جاہل لوگ ہیں قرآن وحدیث کے احکام سے ناواقف معلوم ہوتے ہیں، بہشتی زیور کے آخری گیارہویں حصہ کے آخیر میں ایک رسالہ ”ضمیمہ ثانیہ بہشتی گوہرمسماة بہ تعدیل حقوق والدین“ ہے اس کو آپ بار بار ملاحظہ فرماتے رہیں اور والدین نیز اہل وعیال کے ادائے حقوق میں اعتدال کو اختیار کیے رہیں۔ آپ کے ماں باپ بوڑھے اور بیمار ہیں تو ان دونوں کی خدمت کرنا آپ کے اوپر فرض ہے، سسرال والے کچھ بھی کہیں، آپ کے لیے ہرحال میں والدین کی خدمت کرنا بھی فریضہ ہے اگر ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی کریں گے تو آپ کے لیے حدیث کے بموجب ہلاکت وبربادی ہے، کیا آپ کے خسر صاحب کے والدین بوڑھے اور بیمار ہوں تو وہ انھیں چھوڑکر علیحدہ رہنے کو پسند کریں گے؟ آپ خود نہ سمجھا سکیں تو کسی بڑے آدمی کے ذریعہ سسرال والوں کو سمجھائیں، آپ کی بات معقول ہے، آپ والدین کی اخیر حیات تک خدمت کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سسرال والوں کو عقل نصیب فرمائے اور دین داری نصیب فرمائے۔ آمین


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند