• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 60974

    عنوان: حضرت امام غزالی کی کتاب احیالعلوم میں ایک حدیث ہے جس میں خاندان میں نکاح سے نکاح سے منع کیا گیا ہے۔ حافظ عراقی کہتے ہیں کے یہ حدیث نہں ہے بلکے حضرت عمر فاروق کا قول ہے۔جو کے انہوں نے ایک آدمی کو منع کیا تھا کے وہ خاندان سے باہر شادی کرے۔سعودی عرب میں خاندان میں نکاح سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ لیا جا تا کہ مستقبل میں پیدائشی نکائس والے بچے کم ہوں۔

    سوال: حضرت امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم میں ایک حدیث ہے جس میں خاندان میں نکاح سے منع کیا گیا ہے ۔ حافظ عراقی کہتے ہیں کے یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت عمر فاروق کا قول ہے ۔جو کہ انہوں نے ایک آدمی کو منع کیا تھا کہ وہ خاندان سے باہر شادی کرے ۔ سعودی عربی میں خاندان میں نکاح سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ لیا جاتا کہ مستقبل میں پیدائشی نقائص والے بچے کم ہوں۔

    جواب نمبر: 60974

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 190-190/Sd=4/1437-U خاندان میں شادی کرنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے صحابہ اور صحابیات کی شادیاں آپس میں خاندان میں کی گئی ہیں،خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا آپ کی پھوپی زاد بہن تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی تھی، خاندان میں نکاح کے حوالے سے جو بات مشہور ہے کہ اس سے بچے میں عیب رہتا ہے، یہ بے اصل بات ہے، ایسا ہونا ضروری نہیں ہے،عیب دار بچے تو اجنبی گھرانوں میں شادی کرنے سے بھی پیدا ہوجاتے ہیں اور جہاں تک مذکورہ حدیث کا تعلق ہے، تو یہ بات صحیح ہے کہ محدثین نے اس حدیث پر کلام کیا ہے ، بعض محدثین نے اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے، جو آپ نے ایک مخصوص قبیلے والوں سے کسی خاص وجہہ سے فرمایا تھا اور بعض نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف بھی اس قول کی نسبت کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس کو عربوں کا مقولہ قرارا دیاہے۔ قال ابن حجر: حدیث ” لاتنکحوا القرابة القریبة؛ فان الولد یحلق ضاویاً“ ہذا الحدیث تبع في ایرادہ امام الحرمین ہو والقاضي الحسین۔ وقال ابن الصلاح: لم أجد لہ أصلاً معتمداً۔۔۔۔۔۔وروی ابراہیم الحربي في غریب الحدیث عن عبد اللّٰہ بن الموٴمل عن ابن أبي ملیکة قال قال عمر لآل السائب: قد أضوأتم، فانکحوا في النوابغ۔۔۔ (التلخیص الحبیر: ۳/۳۰۹، باب استحباب النکاح، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت ) وفي فتاوی الشبکة الاسلامیة:وقد تابع ابن الصلاح في ذلک ابن الملقن، والعراقي والألباني۔ وقد أورد ہذا الحدیث کثیر من الفقہاء في الاستدلال علی استحباب کون الزوجة غیر قریبة جداً، منہم الشرواني في حواشیہ، والغزالي في الوسیط والاحیاء، والشربیني في مغني المحتاج۔ ولکن قال السبکي: ینبغي أن لا یثبت ہذا الحکم لعدم الدلیل، وقد زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیاً بفاطمة رضي اللّٰہ عنہا، وہي قرابة قریبة۔( فتاوی الشبکة الاسلامیة:۳/۲۱۴ ) شیخ علی احمد السالوس نے رشتہ داروں میں نکاح کے سلسلے میں تفصیل سے کلام کیا ہے، اور مستقل ایک رسالہ ” زواج الأقارب “ اس موضوع پر لکھا ہے، وہ رسالہ تو تلاش بسیار کے بعد نہیں مل سکا؛ البتہ اُس رسالے کے مضامین کا خلاصہ احمد بن عبد العزیز الحمدان نے اپنی کتاب ” دلیل مکتبة المرأة السلمة“ بیان کیا ہے۔و ہ لکھتے ہیں: افتتح الموٴلف رسالتہ بذکر تاریخ المقولة التي تحذر من نکاح الأقارب، وکیف راجت عند بعض الفقہاء، ومدی قبول العلم الحدیث لہا ورفضہ، وخطورة نسبة ہذہ المقولة الی الشارع الحکیم، وأن سبب تالیفہ کان لبیان خطأ ہذہ النسبة، وأن المسألة قابلة للنقاش۔ ثم عقد فصلاً عن المحرمات وحکمة تحریم نکاحہن، وآراء بعض العلماء في ہذہ الحکمة، وحکمة المنع من جمع بعض القریبات في ذمة رجل واحد۔ثم عقد فصلاً في أي النساء خیر القریبات أم البعیدات؟ وذکر بعض الأحادیث في اختیار الزوجة، وبین أنہ لا یوجد فیہا ما ینہی عن الزواج بالقریبة، وأن حدیث ” اغتربوا لا تضووا “ غیر صحیح؛ بل لا أصل لہ، ثم استدل علی جواز نکاح القریبة ؛ بل فضلہ بفعل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فقد تزوج خدیجة وہي تلتقي معہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في جدہ قصي، وزینب ابنة عمتہ، وأم حبیبة تلتقي معہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عبد مناف۔۔۔وکذلک بناتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یزوجہن الا من أقاربہ، وکذا بنات بناتہ۔ثم عرج علی الصحابة رضي اللّٰہ عنہم وغیرہم ، وبین أن نکاح الأقارب کان معمولاً بہ غیر منکر، ثم استعرض کتب الفقہ، وذکر أن ہذہ المسألة۔۔۔مسألة کراہة زواج الأقارب ۔۔۔ غیر موجودة الا في بعض کتب الشافعیة، و متأخري الحنابلة رحمہم اللّٰہ۔ ثم رجع الی الطب الحدیث، وما قیل فیہ من تایید لہذا الرأي، وذکر أن ہناک من علماء الوراثة من یرد ہذہ المقولة، ویری أن زواج الأقارب کالزواج من الأباعد، وأن وجود المرض الوراثي في أسرة سینتقل الی الأبناء سواء کان الآباء من الأقارب أم من الأباعد ۔ ثم عقد فصلاً قصیراً بین فیہ أن ہذا الحدیث وہو حدیث: ” اغتربوا لا تضووا “ وجدہ عند أہل اللغة یرددونہم ولا یعرفون مخرجہ، وبحث عنہ في کتب السنة، وکتب الفقہ، وکتب التخریج، وجوامع المتأخرین، والمعاجم ، فلم یجدہ ووجد کلاماً قریباً یروی عن أمیر الموٴمنین عمر رضي اللّٰہ عنہ؛ ولکنہ بسند ضعیف جداً و مخصوص بقبیلة بعینہا۔ (دلیل مکتبة المرأة السلمة:۳/۱۲۳، الکتاب السادس والعشرون: زواج الأقارب)، نیز اس مسئلے کے لیے دیکھیے: آپ کے مسائل اور اُن کا حل: ۶/۸۰، بعنوان: ڈاکٹروں کا یہ کہنا کہ قریبی رشتہ داروں کی آپس میں شادی سے بچے ذہنی معذور پیدا ہوتے ہیں، ط: نعیمیہ، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند