• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 608771

    عنوان:

    ولیمہ میں لڑکی والوں کو شریک کرنا؟

    سوال:

    سوال : امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہوں گے کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : زید اپنے بیٹے کا نکاح اپنے بھائی عمرو کی بیٹی سے کرنا چاہتا ہے ،اور دونوں نے یہ طے کیا ہیکہ کھانا جو لڑکے کا ولیمہ ہوگا اس میں دونوں بھائی شریک ہوکر مہمانوں کاانتظام کریں گے کیونکہ عمرو بھی اپنی بیٹی کا مستقل کھانا کرنا چاہتا تھا ۔ جبکہ دونوں کے کھانے میں شریک ہونے والے مہمانوں کی فہرست تقریباً ایک ہی ہوگی اور دونوں بھائی کچھ اپنے پرسنل مہمان بھی بلائیں گے۔ تو کیا اس طرح مشترکہ کھانا دونوں بھائیوں کا مل کرانتظام کرنا درست ہے ۔؟

    جواب نمبر: 608771

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:709-573/L=6/1443

     نکاح کے بعد زوجین کی ملاقات کے بعد جو ولیمہ ہو اس کا لڑکے کی طرف سے ہونا مسنون ہے؛ اس لیے مناسب یہ ہے کہ ولیمہ کا انتظام صرف لڑکے والے ہی کریں لڑکی والوں سے اس کے لیے رقم نہ لیں۔ واضح رہے کہ شادی کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے دعوت مسنون نہیں ہے ؛ لیکن اگر کچھ خاص رشتہ دار آجائیں اور لڑکی والے ان کی ضیافت اپنے طور پر کردیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔

    عن أنس بن مالک رضی اللہ عنہ: أن عبد الرحمن بن عوف، جاء إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وبہ أثر صفرة، فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأخبرہ أنہ تزوج امرأة من الأنصار، قال: کم سقت إلیہا؟ قال: زنة نواة من ذہب، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أولم ولو بشاة(صحیح البخاری ، رقم: 5153) وفی المرقاة: (أولم ولو بشاة) : أی: اتخذ ولیمة، قال ابن الملک: تمسک بظاہرہ من ذہب إلی إیجابہا والأکثر علی أن الأمر للندب. (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح 5/ 2104)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند