• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 608727

    عنوان:

    باپ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی بغیر اجازت کے کردے لڑکی بعد میں اجازت دیدے

    سوال:

    سوال : زید نے اپنی بیٹی آسیہ بی بی کا نکاح خالد سے تقریبا بیس پچیس گواہوں کی موجودگی میں،حق مہر ایک لاکھ روپے کے عوض میں کروادیا نکاح ایک عالم دین نے پڑھایا مگرزید نے اپنی بیٹی آسیہ بی بی سے نکاح کی اجازت طلب نہیں کی ،نہ خود اور نہ کوئی گواہ بھیج کر، حتی کہ آسیہ بی بی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح خالد سے کروادیاہے ۔نکاح ہونے کے تقریبا تین چار گھنٹے بعد آسیہ بی بی کو پتہ چلا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح خالد سے کروادیاہے ، جونہی آسیہ بی بی کو نکاح کا علم ہوا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اپنے والد کیلئے دعا کی کہ کتنے اچھے آدمی سے میرا نکاح کروایا، نکاح کے چار دن بعد رخصتی ہوئی۔ اب چھ مہینے کا وقت گزر چکا ہے ، بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ نکاح نہیں ہوا کیونکہ زید نے اپنی بیٹی آسیہ بی بی سے نکاح کی اجازت نہیں لی تھی حالانکہ اجازت لینی ضروری ہے ۔ آپ حضرات سے التماس ہے کہ بتائیے صورت مسئولہ میں نکاح شرعا منعقد ہوچکی ہے یا نہیں تفصیلی جواب دیجئے جزاکم اللہ خیرا۔ نیز کیابالغہ لڑکی سے نکاح کی اجازت لینا ضروری ہے یا نہیں نیز اجازت لئے بغیر ولی کے نکاح کروانے سے نکاح منعقد ہوجائے گی یا نہیں؟ مزید یہ کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ مولوی صاحب نکاح کا ایجاب و قبول کرنے سے پہلے دو آدمیوں کو لڑکی کی طرف بھیجتا ہے یہ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ اپنے نکاح کروانے کیلئے اپنے نفس کا وکیل کس کو بناتی ہے آیا والد کو یا بھائی وغیرہ کو( پھر لڑکی جس کا نام لے وہ اس کی طرف سے ایجاب و قبول کرتا ہے ) اور یہ معلوم کرنے کیلئے کہ لڑکی اس نکاح پر رضامند بھی ہے یا نہیں؟ پھر وہ دونوں آدمی مولوی صاحب کے پاس آکر مجلس عقد نکاح میں یہ گواہی دیتے ہیں کہ لڑکی نے اپنے نفس کا وکیل مثلا والد کو بنایا ہے اور وہ اس نکاح پر رضامند بھی ہے ہم اس بات پر گواہ ہیں پھر مولوی صاحب ایجاب و قبول کرتا ہے ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس رسم کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کیا اس طرح اجازت لینا ضروری ہے ؟ اگر ولی اجازت لئے بغیر بیٹی کا نکاح کروا دے تو کیا نکاح منعقد ہوجائے گا؟ مولوی صاحب جو دو آدمی بھیج دیتے ہیں لڑکی کی طرف جس مقصد کے لئے (کما ذکر فی السوال) کیا یہ ضروری ہے کیا اس کے بغیر نکاح نہیں ہوگا؟ ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں کہ اس پوچھنے کے بغیر نکاح نہیں ہوتا کیا یہ صحیح ہے ؟ نیز جو نکاح خواں دو آدمی( اس طرح جو سوال میں مذکور ہے )لڑکی کی طرف نہ بھیجے لوگ سخت تنقید کرتے ہیں اور یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ نکاح اس پوچھنے کے بغیر نہیں ہوتا۔ برائے مہربانی اس مسئلے کا مکمل و مدلل حل ارسال کیجئے بہت مشکور ہوں گا۔

    جواب نمبر: 608727

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 623-152T/D=06/1443

     (۱) بہتر تو یہ ہے کہ لڑکی کا ولی باپ بھائی وغیرہ خود ہی لڑکی سے اجازت لے کر نکاح خواں کو بتلادے تاکہ اس کے مطابق نکاح خواں عقد کردے۔

    (۲) ولی کے ساتھ لڑکی کے پاس دو گواہ جانا ضروری نہیں ہے، اگر کسی مصلحت سے اس وقت گواہ موجود ہوں تو بھی حرج نہیں۔

    (۳) اجنبی شخص یا نکاح خواں جاکر لڑکی سے اجازت لے، اس موقعہ پر گواہ موجود ہوں تو بہتر ہے لیکن سب سے بہتر ولی کا خود اجازت لینا ہے ورنہ دوسری صورتوں میں بے پردگی کے امکانات ہوتے ہیں اور اجازت دینے کی طریقے اور الفاظ میں بھی پابندی ہے جو کتب فقہ میں مصرح ہے۔

    (۴) ولی نے جب بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کروا دیا تو یہ نکاح نکاح فضولی ہوا، جس کا حکم یہ ہے کہ وہ موقوف علی اجازة المرأة رہا، پس صورت مسئولہ میں جب لڑکی نے بخوشی اجازت دیدیا تو نکاح نافذ اور لازم ہوگیا۔

    قال فی الدر: فان استأذہنا ہو أي الولی وہو السنة أو وکیلہ أو رسولہ أو زوجہا ولیہا وأخبرہا رسولہ أو فضولی عدلٌ فسکتت عن ردہ مختارة أو ضحکت غیر مستہزة أو بکت بلا صوت ․․․․․ فہو إذن أي توکیل فی الأول إن اتحد الولی ․․․․․․ وإجازة فی الثانی إن بقی النکاح۔ (الدر مع الرد: 8/198-202، فرفور)

    وقال ایضا: ونکاح عبد وأمة بغیر إذن السید موقوف علی الاجازة کنکاح الفضولی أي الذي باشرہ مع آخر أصیل أو ولی أو وکیل أو فضولی ․․․․ قال فی البحر الفضولی من یتصرف لغیرہ بغیر ولایة ولا وکالة أو لنفسہ ولیس أہلاً۔ (الدر مع الرد: 8/332، فرفور)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند