• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 608408

    عنوان:

    کیا لواطت سے مفعول کی بہن حرام ہوجاتی

    سوال:

    نیچے دیا گیا مسئلہ کس کا ہے اور کیا یہ مسئلہ صحیح ہے یانہیں ) ۔ اِس مسئلہ سے ہم بہت بہت ہی زیادہ پریشان ہیں۔ ہم سے بھی ایک لڑکے کے ساتھ لواطت ہوگیاتھا اور میرا نطفہ دخول بھی ہو گیا تھا اورہم بالغ بھی تھے اُس وقت۔اورمیرا نکاح لواطت کروانے والے لڑکے کی بہن سے ہو گئی ہے میں بہت زیادہ پریشان ہوں میرا نکاح جائز ہے یا نہیں۔.میں حنفی مسلک کا ماننے والا ہوں۔ ( یہاں ں سے وہ مسئلہ شروع ہواہے جِس کے بارے میں مُجھے جاننا ہے )۔سوال ۔اگر کسی نے پچپن میں کسی لڑکے کے ساتھ لواط کیا ھو، تو کیا اس لڑکے کی بہن کے ساتھ نکاح کرسکتا ہے ؟ ۲۔ بالغ ھونے سے پہلے انسان پر کوئی تکلیف شرعی نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی مرد کے ساتھ لواط کرے اور اس کی ختنہ گاہ ﴿حشفہ﴾[1] کا ایک حصہ داخل ھوجائے ، تو لواط کرنے والے ﴿ مفعول﴾ کی ماں، دادی، اور جس قدر اوپر جائیں اور لواط کرنے والے ﴿ مفعول﴾ کی بیٹی، بیٹی کی بیٹی اور جس قدر نیچے جائیں اور اس کی بہن لواط کرنے والے ﴿فاعل﴾ پر حرام ھوتی ہیں اگر چہ لواط کرنے والا اور لواط کرانے والا بالغ بھی نہ ھوں۔[2] لیکن فاعل کی ماں، بیٹی اور بہن مفعول پر حرام نہیں ھوتی ہیں۔[3] البتہ اگر گمان کرے کہ دخول ھوا ہے ، یا شک کرے کہ دخول ھوا ہے یا نہیں، تو اس پر حرام نہیں ھو تیں۔ جو کچھ بیان کیا گیا، اس صورت میں ہے کہ لواط کرانے والے ﴿ مفعول﴾ کے ساتھ لواط اس کی ماں ، بہن اور بیٹی سے شادی انجام ھونے سے پہلے انجام پایا ھو۔[4] لیکن اگر لواط کسی مرد کے ساتھ اس کی بیٹی، بہن یا ماں کے ساتھ ازدواج کرنے کے بعد انجام پائے تو مراجع محترم تقلید کے فتوؤں کے مطابق مفعول کی ماں، بہن یا بیٹی فاعل کے لئے حرام نہیں ھوتی ہیں۔ [5]و[6] [1] ۔ ختنہ گاہ. [2] جو کچھ ہم نے نقل کیا ہے ، وہ امام خمینی ﴿رہ﴾ کا نظریہ تھا ، لیکن بعض دوسرے مراجع فرماتے ہیں: مکارم شیرازی: اگر لواط کرنے والا نا بالغ ھوتو حرام نہیں ہے ۔ صافی گلپائیگانی و تبریزی : احتیاط کی بناپر لواط کرنے والے پر بالغ ھونے کی صورت میں حرام ہے ۔ فاضل لنکرانی: اگر کوئی بالغ شخص کسی نابالغ لڑکے سے لواط کرے ، دخول متحقق ھونے کی صورت میں ، اس ﴿مفعول﴾ کی ماں، بہن اور بیٹی اس ﴿لواط کرنے والے ﴾ پر حرام ہیں۔ لیکن اگر فاعل نا بالغ ھو یا بالغ ھونے پر شک کرے تو اس پر حرام نہیں ہے اور اگر دونوں بالغ ھوں تو احتیاط کی بنا پر حرام ہے ۔ سیستانی: لواط کرانے والے ﴿مفعول﴾ کی ماں ، بہن یا بیٹی ، لواط کرنے والے ﴿فاعل﴾ پر اس صورت میں حرام ھوتی ہیں کہ بالغ ھو اگر چہ ختنہ گاہ سے کم تر بھی دخول ھوا ھو۔ اور اسی طرح احتیاط لازم کے طور پر اگر لواط کرانے والا مرد ھو یا یہ کہ لواط کرانے والا بالغ نہ ھو لیکن اگر دخول ھوتے ہیں گمان کرے یا دخول ھوتے یا نہ ھوتے پر شک کرے تو اس پر حرام نہیں ہے اور اس طرح لواط کرنے والے کی ماں، بہن یا بیٹی لواط کرانے والے پر حرام نہیں ہیں۔ [3] ۔ تحریر الوسیلة، ج2، مسئلہ 24، ص 282. [4] ۔ توضیح المسائل، ج 2، صفحہ 473، مسئلہ 240

    جواب نمبر: 608408

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:307-47/TH-Mulhaqa=5/1443

     لواطت سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، خواہ فاعل ومفعول دونوں بالغ ہوں، دونوں مراہق ہوں یا ایک بالغ اور دوسرا مراہق ہو، نیز لواطت نکاح سے پہلے ہو یا نکاح کے بعد ؛ بلکہ زنا یا وطی حلال وغیرہ سے جو حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے، اُس میں عورت یا مرد کے صرف اصول وفروع حرام ہوتے ہیں، حواشی حرام نہیں ہوتے، یعنی: کسی مرد نے کسی عورت سے بہ ذریعہ نکاح وطی کی یا زنا کیا یا حسب شرائط شہوت کے ساتھ مس وغیرہ کیا تو مرد کے اصول وفروع عورت پر حرام ہوں گے اور عورت کے اصول وفروع مرد پر حرام ہوں گے، مرد کا بھائی اور عورت کی بہن دوسرے پر حرام نہیں ہوگی ، یعنی: اگر مرد کا نکاح عورت کی بہن سے یا عورت کا نکاح مرد کے بھائی سے ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں، پس مفعول کی بہن سے آپ کا جو نکاح ہوا ہے، وہ بلاشبہ صحیح ودرست ہے، اس میں آپ کو کچھ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں؛ البتہ جو گناہ ہوا ہے، اس سے فاعل ومفعول دونوں پر سچی پکی توبہ ضروری ہے، اور سوال میں تحریر الوسیلہ اور توضیح المسائل وغیرہ سے جو باتیں نقل کی گئی ہیں، وہ سب شیعوں کی اپنی خانہ ساز ہیں، اور سیستانی بھی شیعہ ہے، مسلمانوں کو نیٹ وغیرہ پرموجود اس طرح کی چیزوں سے دور رہنا چاہیے ۔

    (فلا) تثبت الحرمة بھا - بغیر الحیة المشھاة من المیتة والصغیرة الغیر المشتھاة-أصلاً کوطء دبر مطلقاً (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ۴: ۱۱۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۸: ۱۱۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”مطلقاً“: أي: سواء کان بصبي أو امرأة کما في غایة البیان، وعلیہ الفتوی کما في الواقعات،ح عن البحر، وفي الولوالجیة: ”أتی رجل رجلاً لہ أن یتزوج بابنتہ؛ لأن ھذا الفعل لو کان في الإناث لا یوجب حرمة المصاھرة ففي الذکر أولی“۔ (رد المحتار)۔

    (و)حرم أیضاً بالصھریة (أصل مزنیتہ)…(و)أصل (ممسوستہ بشھوة) ولو لشعر علی الرأس بحائل لا یمنع الحرارة (وأصل ماستہ …) ……(وفروعھن) مطلقاً (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ۴: ۱۰۷، ۱۰۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۸: ۱۰۸-۱۱۱، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ: ”وحرم أیضاً بالصھریة أصل مزنیتہ“:قال فی البحر:أراد بحرمة المصاہرة الحرمات الأربع: حرمة المرأة علی أصول الزاني وفروعہ نسباً ورضاعا وحرمة أصولھا وفروعھا علی الزاني نسباً ورضاعاً کما فی الوطء الحلال إلخ (رد المحتار)۔

    ومقتضی تقییدہ بالفرع والأصل أنہ لا خلاف في عدم الحرمة علی غیرھما من الحواشي کالأخ والعم (رد المحتار، ۴: ۱۰۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۸:۱۰۶، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند