• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 608263

    عنوان:

    لڑکی کا بغیر والی کے غیر کفو میں شادی کرنا

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام حسب ذیل کے بارے میں؟ اگر کوئی مسلمان عاقل بالغ باکرہ لڑکی کسی مسلمان عاقل بالغ مگر دوسری برادری کے لڑکے سے نکاح کرنا چاہتی ہے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر گھر والوں سے چھپ کر۔ کیوں کہ اندیشہ ہی نہیں بلکہ مکمل یقین ہے کہ اگر اپنے گھر والوں یا رشتہ داروں سے وہ اس بات کا ذکر بھی کریگی اس پر تشدد کیا جائے گا یہاں تک کہ یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ اس لڑکی کو قتل ہی کر دیں۔ تو کیا ایسی صورت میں ۱ کیا وہ لڑکی اپنے گھر سے نکل کر اس لڑکے سے نکاح کر سکتی ہے ؟ ۲ کیا وہ اپنے والدین کے گھر رہتے ہوئے موبائل پر نکاح کی اجازت دے سکتی ہے ؟ ۳یا پھر وہ گھر سے خود جاکر قاضی نکاح کے سامنے جاکر اپنے نکاح کی اجازت دے سکتی ہے ؟ ۴ کیونکہ بستی میں بھی اسکا کوئی ولی نہیں بن سکتا ایسی صورت میں کسے ولی بنا سکتی ہے ؟ کیونکہ تمام عزیز و اقارب و رشتہ دار سب ہی خلاف ہیں غیر برادری کی وجہ سے ۔ جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی پاکستان کا فتویٰ نمبر 144107201007 ملاحظہ کریں جس میں انہوں نے مبہم سا جواب لکھا ہے جو کہ غیر واضح ہے اس میں انہوں نے لکھا ہیکہ " اگر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہو جاتا ہے ، اگرچہ والدین کی رضامندی کے خلاف نکاح کرنا شرعاً واخلاقاََ پسندیدہ نہیں ہے ؛ اگر لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کیا تو تو اولاد ہونے سے پہلے لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے ، اگر کفو میں نکاح کیا ہے تو پھر لڑکی کے اولیاء کو اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ، اور کفو کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم لڑکی کے ہم پلہ ہو اس سے کم نہ ہو؛ نیز کفار میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے ، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے ۔ قرآن کی آیت کریمہ بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اسکی مرضی سے ہونا چاہیے ، اور عاقلہ بالغہ عورت اگر اپنی رضا سے مناسب جگہ نکاح کرتی ہے تو اولیاء بلا کسی شرعی سبب اسے روکنے کا اختیار نہیں ررکھتے ، چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت نمبر " ۲۳۲" ۱ درج بالا فتویٰ کی بنیاد پر تو جس لڑکی کا نکاح اسکے ولی فسخ کروا دینگے اس لڑکی کی زندگی ہی تباہ ہو جائے گی؟ ۲اسی فتویٰ کی دلیل میں جو سورة بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۲ کا حوالات دیا ہے وہ باکرہ لڑکی کیلئے تو معلوم پڑتا؛ اس آیت میں تو صراحتاً مطلقہ عورت کا ذکر ہے ؛ اسکی بھی وضاحت فرمائیں؟ ۳ اگر بنا ولی کے نکاح منعقد ہو جائے گا تو پھر سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۲۰۸۳ (, 2083) کی کیا تاویل کریں گے ؟ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْیَانُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ، عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ مُوسَی، عَنْ الزُّہْرِیِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّمَا امْرَأَةٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ مَوَالِیہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنْ دَخَلَ بِہَا، فَالْمَہْرُ لَہَا بِمَا أَصَابَ مِنْہَا، فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَہُ . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین بار فرمایا، ( پھر فرمایا ) اگر اس مرد نے ایسی عورت سے جماع کر لیا تو اس جماع کے عوض عورت کے لیے اس کا مہر ہے اور اگر ولی اختلاف کریں ۱ تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو ۲ ۔ سنن ابو داو، #2083

    برائے کرم برائے کرم مفصل اور اور مدلل جواب ارسال کریں۔

    جامعة العلوم الاسلامیہ کے فتویٰ کو دیکھنے کے لئے ان کی ویب سائٹ

    https://www.banuri.edu.pk/readquestion/bagher-wali-ky-nikha-ka-hukum-144107201007/21-03-2020 پر وزٹ کر سکتے ہیں۔

    جواب نمبر: 608263

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 551-149T/D=05/1443

     (الف) لڑکی کا اولیاء کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے، اگرچہ ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا، پھر اگر یہ نکاح ”کفو“ سے ہوا ہے تب تو اولیاء کو نکاح فسخ کرانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اور اگر ”کفو“ سے نہیں ہوا تو ظہور حمل سے پہلے پہلے اولیاء کو نکاح فسخ کرانے کا حق ہے۔ یہ تو فقہ حنفی کے مطابق مسئلے کا بیان ہوا۔

    (ب) باقی سوال میں جس مخصوص صورت حال کا ذکر ہے کہ لڑکی جہاں نکاح چاہتی ہے اولیاء کے سامنے اس کا اظہار کرے گی تو تشدد کا اندیشہ ہے کیا اس صورت میں وہ خود گھر والوں سے چھپ کر نکاح کرسکتی ہے؟ اس کے متعلق تین باتیں ہیں:

    اولاً- جب مطلقاً لڑکی کا کیا ہوا نکاح جائز و منعقد ہے گوکہ شرعاً و اخلاقاً بالکل پسندیدہ نہ ہو تو اس صورت حال میں بھی یہی حکم ہوگا۔

    ثانیاً- جس اندیشے اور خطرے کی وجہ سے لڑکی اپنی پسند کی جگہ اولیاء کو بتانے سے ڈر رہی ہے تو اوہ اندیشہ چھپ کر نکاح کرنے کی صورت میں بھی برقرار رہے گا اگر وہ لوگ سائل کے بقول محض اپنی پسند بتلانے پر تشدد کرسکتے ہیں تو نکاح کرلینے میں یہ خطرہ اور بڑھ جائے گا، اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ لڑکی خاندان کے دیگر سنجیدہ اور بااثر افراد کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرے، وہ لوگ لڑکی اور اس کے اولیاء کی بات سن کر مناسب طریقے سے معاملہ حل کردیں۔

    ثالثاً- جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ لڑکی کے لیے اپنے نکاح کے معاملات اولیاء کے واسطے اور رضامندی کے بغیر خود انجام دینا شرعاً و عقلاً ناپسندیدہ ہے، اور حیاء کے خلاف بھی ہے، لہٰذا لڑکی کا نکاح اولیاء کے واسطے سے اور ان کی رضا کے ساتھ ہی ہونا چاہئے۔ دوسری طرف اولیاء کو بھی شریعت کی ہدایت ہے کہ بغیر لڑکی کی اجازت ورضامندی کے کہیں اس کا نکاح نہ کریں، اگر لڑکی اس نکاح کو رد کردے گی تو وہ منعقد نہیں ہوگا، لہٰذا اولیاء کو بھی چاہئے لڑکی کا نکاح کرنے میں اس کی رضامندی کو ملحوظ رکھیں۔ اور لڑکی کے کسی رشتے کو پسند کرنے کی صورت میں اگر مصلحت ہوتو اسے منظور کرلیں۔

    (ج) سوال میں ایک جملہ ہے، جو بہ ظاہر مسئلہ مذکورہ پر اشکال ہے: ”درج بالا فتوے کی بنیاد پرتو جس لڑکی کا نکاح اس کے ولی فسخ کرادیں گے اس کی زندگی تباہ ہوجائے گی“۔ اس بارے میں عرض ہے کہ:۔

    اولاً- اولیاء کو نکاح فسخ کرانے کا حق بعض شرائط کے ساتھ ہے، منجملہ ان کے یہ ہے کہ وہ نکاح غیر کفو میں ہوا ہو، نیز نکاح کے بعد حمل کا ظہور نہ ہوا ہو، واضح ہو کہ محض برادری بدلنے سے اولیاء کو حق فسخ نہیں ملتا، حق فسخ اسی وقت ملتا ہے جب وہ برادری ”کفو“ نہ ہو۔

    ثانیاً- اولیاء کو جو حق فسخ دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بہرصورت نکاح کو فسخ کراکر ہی دم لیں، اس حق کا مقصد یہی ہے کہ وہ لڑکی اور خاندان کی مصلحت دیکھیں، اگر فسخ کرانے میں مصلحت ہے تو فسخ کرادیں، اور اگر بہتر یہ لگتا ہے کہ فسخ نہ کرایا جائے تو اپنے اس حق کا استعمال نہ کریں۔ اور لڑکی کی مصلحت میں یہ بات یقینا قابل غور ہوگی کہ فسخ نکاح کے بعد لڑکی کو بہتر رشتہ مل پائے گا یا نہیں۔

    (د) رہی بات دلائل کی تو وہ کتب دلائل اور شروح احادیث میں تفصیل سے مذکور ہیں، اس کے لیے آپ اعلاء السنن: 11/65-70، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند، درس ترمذی: 3/373-382، اور بذل المجہود: 7/654-661، تحقیق الشیخ تقی الدین الندوی وغیرہ ملاحظہ کرلیں۔

    (لا) ولی کی ولایت لڑکی کے بنانے پر موقوف نہیں ہے؛ بلکہ شریعت میں عصبات کی ترتیب پر ولی مقرر ہے، لہٰذا جو بھی قریب ترین عصبہ موجود ہوگا وہی لڑکی کا ولی کہلائے گا۔ لڑکی کے لیے سب سے قریبی ولی باپ ہے، پھر دادا ہے، پھر بھائی پھر چچا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند