• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 606227

    عنوان:

    کرسچن خاتون سے نکاح کرنا

    سوال:

    میں پاکستان کا باشندہ ہوں لیکن عرصہ دراز سے ساؤتھ افریقہ میں مقیم ہوں۔عمر تقریبا 38 سال ہے ۔ ایک کمپنی میں ایک کرسچن عورت بھی کام کرتی ہے میں بھی کام کرتاہوں۔اس کے ہمراہ 12 سال گزرے ۔وہ دو بچوں کی طلاق یافتہ ماں ہے ۔اس کی عمر 40 سال ہے ۔اب تک اس نے مجھے کسی کے ساتھ گناہ کرنے یا بے راہ روی سے بچا رکھا ہے ۔خود بھی دوسرے لوگوں سے گناہ نہیں کرتی۔میں اس کے ساتھ گناہ کرنے کی بجائے نکاح کرنا چاہتاہوں وہ غیر مشروط طور پر راضی ہے ۔اسلام کی راہ میں کوء رکاوٹ نہیں۔یہ بھی کہتی ہے کہ اولاد کو مسلم بنانا نہ بنانا آپ کا کام ہے ۔اب اگر نکاح نہ کروں تو تاحیات اس کے ساتھ گناہ کرتا رہوں گا کیونکہ میرے لئے گناہ سے بچنا ناممکن ہے ۔اس کا عقیدہ ہے "god is the father of jesus christ the son of god nd the holy spirit {گوڈ یسوع مسیح خداوند کے بیٹے اور روح القدس کے فادر ہیں} میں جواب کا بے چینی سے انتظار کرتا رہوں گا۔ ایک سائل ساؤ تھ افریقہ سے ۔

    جواب نمبر: 606227

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:137-80T/SN=2/1443

     ایک مسلمان کے لیے نعمتِ ایمان ہی سب سے اہم ہونی چاہئے ، ایمان کے تقاضے پر عمل کرنے کے لیے ہمیں ہمت سے کام لینا چاہئے ، بغیر ہمت کے استقامت مشکل ہے ،آپ کا یہ کہنا کہ اب اگر (اس کرسچن عورت سے )نکاح نہ کروں تو تاحیات اس کے ساتھ گناہ کرتا رہوں گا، دین کے سلسلے میں تیقظ کی کمی اور شریعت پر عمل کرنے کے سلسلے میں کم ہمتی کی طرف مشیر ہے ، اگر ایمان کواہمیت دی جائے ، خدا کی قدرت پرنگاہ ر کھی جائے اور گناہوں سے بچنے کے لیے ہمت سے کام لیا جائے تو ایک مسلمان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ گناہوں پر اصرار کرے ۔ رہا آپ کا اِس کرسچن عورت سے نکاح کرنا تو اگرچہ شرعا ایسا کرنے کی گنجائش ہے (بہ شرطے کہ یہ عورت حضرت عیسی علیہ السلام اور ان پر نازل کردہ آسمانی کتاب پر ایمان رکھتی ہو)؛ لیکن مختلف شرعی وجوہات کی بنا پر اہل کتاب بالخصوص آج کی اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنے کو علما نے ناپسند کیا ہے ؛ اس لئے عافیت کی راہ اسی میں ہے کہ آپ اس عورت سے بالکلیہ علاحدگی اختیار کرلیں ، گناہوں سے بچیں، اگر آپ کو شادی کی فی الواقع ضرورت ہے تو کسی پاکدامن مسلمان عورت سے شادی کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کواپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

    (وصح نکاح کتابیة) ، وإن کرہ تنزیہا (مؤمنة بنبی) مرسل (مقرة بکتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسیح إلہا․ (الدر المختار) (قولہ: کتابیة) أطلقہ فشمل الحربیة والذمیة والحرة والأمة ح عن البحر (قولہ: وإن کرہ تنزیہا) أی سواء کانت ذمیة أو حربیة، فإن صاحب البحر استظہر أن الکراہة فی الکتابیة الحربیة تنزیہیة فالذمیة أولی․․․․ قلت: علل ذلک فی البحر بأن التحریمیة لا بد لہا من نہی أو ما فی معناہ؛ لأنہا فی رتبة الواجب․ اہ․ وفیہ أن إطلاقہم الکراہة فی الحربیة یفید أنہا تحریمیة، والدلیل عند المجتہد علی أن التعلیل یفید ذلک، ففی الفتح: ویجوز تزوج الکتابیات، والأولی أن لا یفعل، ولا یأکل ذبیحتہم إلا للضرورة، وتکرہ الکتابیة الحربیة إجماعا؛ لافتتاح باب الفتنة من إمکان التعلق المستدعی للمقام معہا فی دار الحرب، وتعریض الولد علی التخلق بأخلاق أہل الکفر․․․․فقولہ: والأولی أن لا یفعل یفید کراہة التنزیہ فی غیر الحربیة، وما بعدہ یفید کراہة التحریم فی الحربیة تأمل․ (الدر المختار وحاشیة مع رد المحتار:4/ 125 وبعدہ، مطبوعہ: مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند