• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 605926

    عنوان:

    رضاعت کے ثبوت کے لیےصرف ایک عورت کی گواہی کافی نہیں؟

    سوال:

    ایک مسٴلہ کی وضاحت فرمائیں مسٴلہ یہ ہے کہ ایک لڑکا جسکا نام دلاور خان۔ عمر ۲۰سال۔ اور ایک لڑکی جسکا نام فرحین بانو عمر -۱۸سال -دونوں آپس میں ماموں زاد بھائی بہن ہیں دونوں کا نکاح۔ ۱جنوری ۲۰۲۱۔ ہواتھا نکاح ہونے کے چند دن بعد لڑکے کی ماں نے کہا کہ میں نے مدت رضاعیت (لڑکی کی عمر دو سال سے کم تھی) میں لڑکی کو دودھ پلایا تھا لہذا یہ نکاح نہیں ہوا تو گھر کے سارے افراد نے کہا کہ جب آپ نے مدت رضاعیت میں دودھ پلایا تھا تو آپ کو نکاح سے قبل بتانا چاہیے تھا تو لڑکے کی ماں نے کہا کہ میں نے نکاح سے ایک دو سال قبل آپ لوگوں کو۔ کء مرتبہ بتا چکی ہوں۔ اس کے بعد گھر کے سارے افراد نے کہا کہ آپ نے ہم لوگوں کو کبھی بھی نہیں بتایا ہے۔ لڑکے کی ماں کا کہنا ہے کہ میں نے مدت رضاعیت میں لڑکی کو دودھ پلایا ہے۔ گھر کے سارے افراد کا کہنا ہے کہ آپ نے دودھ نہیں پلایا ہے۔

    آپ حضرات سے گزارش ہے کہ مسئلے کی وضاحت فرمائیں کہ درست ہوا کہ نہیں؟

    جواب نمبر: 605926

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:4-11T/sd=1/1443

     رضاعت کے ثبوت کے لیے دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ضروری ہے ، صرف ایک عورت کی گواہی سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ہے ، پس صورت مسئولہ میں اگر لڑکے کی والدہ کے پاس اپنے دعوی پر شرعی شہادت موجود نہیں ہے تو محض ان کے دعوی سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی ۔ وحجتہ حجة المال وہی شہادة عدلین أو عدلٍ وعدلتین ۔قال ابن عابدین: وأفاد أنہ لا یثبت بخبر الواحد امرأةً کان أو رجلاً قبل العقد وبعدہ وبہ صرح فی الکافی والنہایة تبعا لما فی رضاع الخانیة (الدر المختار مع رد المحتار)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند