• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 605621

    عنوان: اگر تایا کی بیٹی نے دادی کا دودھ پیا ہو تو کیا اس سے نکاح ہو سکتا ہے؟؟

    سوال:

    سوال : میری شادی ڈیڑھ سال پہلے میرے تایا کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ ہمارے یہاں بچے کی ولادت ہونے والی ہے ۔ لیکن اب مجھے پتا چلا ہے کہ میری کزن جب چھوٹی تھی تو وہ روتی تھی جس کی وجہ سے میری دادی اس کے منہ میں اپنے پستان ڈالتی تھی تو وہ خاموش ہو جاتی تھی۔ اس بات کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں کہ دودھ اس کے منہ یا حلق میں جاتا تھا یا نہیں۔ 1- کیا اس کزن سے میرا نکاح قائم ہے یا نہیں؟

    2- اگر نکاح قائم نہیں تو اس دوران جو ہمبستری کی ہے کیا وہ زنا شمار ہوگا؟

    3- اگر زنا شمار ہوگا تو میں توبہ کس طرح کر سکتا ہوں اور اس کی کیا سزا ہے ؟

    4- جو بچہ پیدا ہونے والا ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟وہ کس کی اولاد شمار ہوگی؟

    5- اگر نکاح قائم نہیں ہے تو کیا طلاق دینا ضروری ہے ؟

    6- حق مہر کی کچھ رقم باقی ہے تو کیا وہ ادا کرنا ہوگی؟

    براہِ کرم جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں تاکہ میں مزید پریشانی سے بچ سکوں۔ اللّٰہ آپ کو جزائے خیر دے آمین

    جواب نمبر: 605621

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1151-320T/D=12/1442

     (الف) اگر دادی صرف پستان منہ میں ڈالتی تھیں مگر کسی وجہ سے دودھ منہ میں جانے کا یقین نہیں ہے (مثلاً یہ کہ دادی کے معمر ہونے کی وجہ سے دودھ خشک ہوگیا تھا یا دادی کا بیان یہ ہے کہ دودھ منہ میں نہیں جاتا تھا) یا اُڑتی خبر ہے جس پر آپ کو یقین نہیں تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔

    (ب) ۱۔ اور اگر یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ آپ کی بیوی نے آپ کی دادی کا دودھ پیا تھا تو رضاعت ثابت ہوجائے گی، اور رضاعی پھوپھی ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ آپ کا نکاح فاسد ہوجائے گا۔ اب متارکت کرنا (یعنی میں نے اسے چھوڑ دیا / علیحدہ کردیا کہہ کر) علیحدگی اختیار کرنا واجب ہے۔

    ۲، ۳۔ چونکہ یہ ہمبستری حقیقت سے لاعلمی کی وجہ سے ہوئی اس لیے یہ زنا شمار نہیں ہوگی، وطی بالشبہة ہوگی، اس کے احکام اس پر جاری ہوں گے۔

    ۴۔ وہ بچہ ثابت النسب ہے، شرعاً آپ اس کے باپ ہیں۔

    ۵۔ زبان سے علیحدگی کا کوئی لفظ کہنا ضروری ہے چاہے طلاق ہو یا کوئی اور لفظ ہو۔

    ۶۔ بیوی کے مہر مثل اور مہر مسمی (نکاح کے وقت متعین کردہ مہر) میں سے جو کم ہو وہ مہر واجب ہوگا۔ اگر اس مقدار سے کچھ رقم بچ رہی ہو تو اس کی ادائیگی ضروری ہے۔

    فی الدر: فلوا التقم الحلمة ولم یدر أدخل اللبن فی حلقہ أم لا لم یحرم؛ لأن فی المانع شکاّ۔ ولوالجیة۔ وفي الرد: قولہ: فلو التقم الخ: تفریع علی التقیید بقولہ: إن علم۔ وفي القنیة: امرأة کانت تعطی ثدیہا صبیة واشتہر ذلک بینہم ثم تقول: لم یکن في ثدیي لبن حین ألقمتہا ثدیي ولم یعلم ذلک إلا من جہتہا جاز لابنہا أن یتزوج بہذہ الصبیة۔ (4/402، زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند