• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 605480

    عنوان:

    كتنی مقدار میں كسی عورت كا دودھ پی لینے سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے؟

    سوال:

    سوال : حضرت سوال یہ کرنا تھا کہ اگر کوئی شخص عورت کا دودھ اتنی مقدار میں پیلے کے جس سے اس کے جسم کا کوئی عضو پرورش پالے تو اس سے رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں ؟ اصل میں پوچھنے کی غرض یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں عورتوں کا دودھ فروخت کیا جارہا ہے جو کہ ناجائز ہے لیکن دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر کوئی اتنی مقدار میں پی لے تو اس سے رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں نیز اگر یہ معاملہ شوہر و بیوی کے درمیان پیش آئے تو کیا حکم ہے ؟مہربانی کرکے وضاحت فرمائیے ۔

    جواب نمبر: 605480

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:843-161T/N=12/1442

     (۱): حرمت رضاعت کے لیے بچہ یا بچی کا مدت رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پینا شرط ہے اور مدت رضاعت مفتی بہ قول کے مطابق ۲/ سال قمری ہیں، یعنی: چاند کے حساب سے مکمل ۲/ سال؛ لہٰذا اگر کسی بچہ یا بچی نے ۲/ سال کے بعد کسی عورت کادودھ پیا تو حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی؛ البتہ حرمت رضاعت کے لیے کسی عورت کے دودھ کے ایک قطرہ کا بھی بچہ یا بچی کی حلق میں منھ یا ناک کے راستہ سے پہنچ جانا کافی ہے، اس سے زیادہ مقدار ضروری نہیں۔

    في وقت مخصوص ہو حولان ونصف عندہ وحولان فقط عندہما وہو الأصح فتح، وبہ یفتی کما في تصحیح القدوري (ص:۳۵۵) عن العیون؛ لکن في الجوہرة أنہ في الحولین ونصف ولو بعد الفطام محرِّم وعلیہ الفتوی، ․․․ والأصحّ أن العبرة لقوة الدلیل (الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الرضاع، ۴:۳۹۳-۳۹۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ: ”والأصح أن العبرة لقوة الدلیل“: قال في البحر: ولا یخفی قوة دلیلہما إلخ (رد المحتار)۔

    وإن قل إن علم وصولہ لجوفہ من فمہ أو أنفہ لا غیر (الدر المختار مع رد المحتار، ۴: ۳۹۹-۴۰۱)۔

    ویثبت حکمہ أي:الرضاع، وھو حل النظر وحرمة المناکحة بقلیلہ ولو قطرة وکثیرہ وھو مذھب جمہور العلماء لإطلاق النص والأحادیث (مجمع الأنھر، ۱: ۵۵۱، ۵۵۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

    (۲، ۳): کسی بچہ یا بچی نے اگر مدت رضاعت میں کسی عورت کا دودھ پیااور وہ حلق کے نیچے اترگیا تو حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی اور اگر دودھ پینے والا مدت رضاعت سے نکل گیا تھا تو حرمت رضاعت تو ثابت نہ ہوگی؛ البتہ اُسے عورت کا دودھ پینے کا گناہ ہوگا، اسی طرح اگر شوہر نے بیوی کا دودھ پی لیا اور وہ مدت رضاعت سے نکل چکا تھا تو حرمت رضاعت ثابت نہ ہوگی؛ البتہ بیوی کا دودھ پینے کا گناہ ہوگا؛ لہٰذا شوہر کو اس کا خیال رکھنا چاہیے اور اگر کبھی بے احتیاطی سے دودھ منھ میں آجائے تو اسے تھوک دینا چاہیے، نگلنا نہیں چاہیے۔

    مص رجل ثدي زوجتہ لم تحرم (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الرضاع، ۴:۴۲۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    ولم یبح الإرضاع بعد مدّتہ؛ لأنہ جزء آدمی والانتفاع بہ لغیرضرورة حرام علی الصّحیح ، شرح الوھبانیة (المصدر السابق، ص: ۳۹۷) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند