• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 60513

    عنوان: کیا کسی سیدہ مسلمہ کا کسی غیر سید سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟

    سوال: میں سنی مسلم ہوں ، گذشتہ دو سال سے میرا تعلق ایک سیدہ مسلمہ کے ساتھ تھا، ہم دونوں نے رشتے متعلق اپنے اپنے گھر میں بات کی ، میرے گھر والے راضی ہوگئے ، لیکن ان کے گھر والے میرے انصاری ہونے کی وجہ سے راضی نہیں ہوئے، ہم دونوں نے انہیں مطمئن کرنے اور ان کی رضا لینے کی پرزور کوشش کی وہ پھر بھی نہیں مانے تو ہم نے اس رجب کی 19تاریخ کو دو بالغ مرد گواہوں کی موجودگی یں مہر ادا کرکے قاضی سے مدرسہ میں نکاح پڑھوالیا، نکاح میں میری بیوی خود شریک ہوئی اور انہوں نے اپنی زبان سے نکاح کو قبول کیا ۔ ہمارے نکاح کے باوجود میری اہلیہ کے والدین ہمارے نکاح کو تسلیم نہیں کررہے ہیں اور ہمیں الگ کرنے کی پرزور کوشش کررہے ہیں، میں اور میری بیوی اسلام کو مانتے ہیں، روزہ نماز کے پابندہیں، دیندار ہیں اور ہر ارکان کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، میں ہندوستان میں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت کرتاہوں، لہذا، اپنی بیوی کا خیال بخوبی رکھ سکتاہوں،مگر میری اہلیہ کے والدین ہمارے نکاح کو ختم کرنا چاہتے ہیں صرف ذات کی بنیاد پر جب کہ میں نے سناہے کہ اور بعض روایتوں میں بھی پڑھا ہے کہ اسلام میں ذات برادری نام کی کوئی چیز نہیں ہے، میرے چند سوالات مندرجہ ذیل ہیں، (۱) کیا کسی سیدہ مسلمہ کا کسی غیر سید سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ (۲) کیا کوئی بالغ مسلم مسلمہ بنا والدین کے مرضی کے نکاح کرلے تو یا وہ نکاح نکاح نہیں رہ جاتا؟ (۳) اگر بنا والدین کی مرضی کے نکاح ہوگیا ہے تو کیا والدین کو شرعی حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کو ختم کردے جب کہ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہو؟ براہ کرم، فتوی کی شکل میں قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں جسے میں اپنی بیوی کی زینت کی حفاظت کرسکوں اور اپنے نکاح کو بچا سکوں۔بے شک اللہ دلوں کا حال جانتاہے اور بے شک وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

    جواب نمبر: 60513

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 987-1032/N=11/1436-U (۱) اگر وہ غیر سید لڑکا، سیدہ لڑکی کا کفو نہ ہو مثلاً انصاری ہو اور سیدہ لڑکی اپنے والد کی اجازت ومرضی اور سرپرستی کے بغیر از خود نکاح کرلے تو حسن بن زیاد کی روایت کے مطابق وہ نکاح سرے سے صحیح ہی نہ ہوگا ،اور کسی زمانہ میں اسی روایت پر فتوی تھا ، لیکن اب حالات زمانہ کی وجہ سے فتوی اس پر ہے کہ وہ نکاح ہوجائے گا ،البتہ لڑکی کے والد کو حق اعتراض حاصل ہوگا ، وہ اپنے اس حق کی بنیاد پر شرعی پنچایت میں جاکر نکاح فسخ کراسکتا ہے بشرطیکہ وہ معلوم ہونے کے بعد بچہ کی ولادت یا حمل ظاہر ہونے تک خاموشی اختیار نہ کرے ورنہ اس کا یہ حق ختم ہوجائے گا قال فی الدر (مع الرد، کتاب النکاح،باب الولي ۴:۱۵۵- ۱۵۷ط مکتبة زکریا دیوبند):( فنفذ نکاح حرة مکلفة بلا ) رضا ( ولی )،والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف في نفسہ وما لا فلا ( ولہ )أي: للولي ( إذا کان عصبة )……( الاعتراض في غیر الکفء) فیفسخہ القاضي،…… ( ما لم ) یسکت حتی ( تلد منہ ) لئلا یضیع الولد ، وینبغي إلحاق الحبل الظاھر بہ، ( ویفتی) في غیر الکفء ( بعدم جوازہ أصلاً ) وھو المختار( لفساد الزمان )اھ۔ (۲) اگر لڑکا، لڑکی کا کفو نہیں ہے تو اس کا حکم اوپر آگیا،اور اگر کفو ہے تو یہ نکاح ہوجائے گا اورلڑکی کے ولی کو نکاح فسخ کرانے کا حق بھی نہ ہوگا،البتہ لڑکی کا اس طرح اپنے ولی کی اجازت ومرضی اور سرپرستی کے بغیر نکاح کرنا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے؛بلکہ برا ہے قال في رد المحتار(کتاب النکاح،باب الولي ۴:۱۵۴):قولہ: ( ولایة ندب )أي: یستحب للمرأة تفویض أمرھا إلی ولیھا کی لا تنسب إلی الوقاحة، بحر، وللخروج من خلاف الشافعي فی البکر اھ۔ (۳) اس کا جواب اوپر نمبر ایک اور دو میں آگیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند