• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 604996

    عنوان:

    گناہ سے بچنے کے لئے خفیہ طریقے پر نکاح کا حکم

    سوال:

    میں اپنے کزن کو بچپن سے چاہتی ہوں بارہاں ہم دونوں میں انکی طرف سے اظہار محبت ہوا اور پھر ہمارے والدین کے سامنے بات آی ۔۔۔پہلے تو ناراض ہوئے مگر اب میرے والدین بھی راضی ہیں میری خوشی میں لیکن انکا کہنا ہے کے میرا کزن جس سے میں شادی کرنا چاہتی ہوں اپنے پاو پر کھڑا ہوجاے یعنی نوکری کرے اور اس سب کے لیئے ابھی لڑکے کی تعلیم مکمل نہیں ہے وہ مزید 4 یا3 سال رہتے ہیں ماسٹر کرنے میں میرے والد کے سٹینڈرڈ پر آنے میں لڑکے کو تو لیکن اب ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہیں بھی کزن ملاقات کرنا بہت آسان ہے اور ایک سال سے تقریبا اب مہینے میں ایک ملاقات تو ہو ہی جاتی ہے خودکو روکتے روکتے بھی کیونکہ ہم دونوں رابطہ ختم کردیتے ہیں کے اللہ ناراض ہوگا اور محبت ختم ہوجائے گی لیکن پھر سامنا آمنا یا رابطہ ہوجاتا ہے اور یہ مستقل ایک سال سے بڑھ راہا ہے کے رابطہ ختم کرکے کوئی کام نہیں ہوتا اور زیادہ یاد آتی ہے اور پھر تڑپ بڑھ جاتی ہے کہ ملاقات تک بات جانے لگ گئی ہے اب ۔اب ہر وقت انکا خیال آتا رہتا ہے اور گناہ کا بھی ڈر ہے ۔ابھی تک تو باچایا ہے خودکو ہم دونو نے مگر یہ معاملات یوں رہے تو ہم سے محبت میں گناہ ہوگا ۔یہ جذبات ان کے بھی ہیں اور بار بار ہم دونوں روتے ہیں کے ہم نے ایک دوسرے کو اللہ سے مانگا ہے شروع سے اور 6 سال سے ایسا نہیں تھا لیکن اب بات آگے بڑھ رھی ھے تو ہم دونوں پر نکاح لازم ہے ہم دونوں سمجھتے ہیں یہ لیکن ماں باپ ان جذبات کی حد تک نہیں سمجھ رہے وہ سمجھ رہے ہیں کے بس وقت آنے پر پرھای کے بعد دو تین سال میں خردیں گے شادی ،ایسے میں ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دونوں نکاح کرکے خود کو اور اللہ تعالی کو اس غلط رشتے سے تکیف نہ دیں اور یقیناًماں باپ سے اس بات کو چھپائیں ورنہ وہ ناراض ہوں گے سمجھنے کے بجائے جذبات کو ہمارے ،تو ایسے میں ہم دونوں ابھی کے گناہ سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پاکیزہ نکاح کے رشتے میں جوڑ لیں؟ اور پھر وقت آنے پر سب کے سامنے جب 3 سال بعد شادی کریں تو بتادیں گے کہ ہم نے اللہ کے ناراضگی سے بچنے کے لئے یہ نکاح دوستوں کی موجودگی میں 3 سال پہلے کیا تھا ۔مگر انشا اللہ ماں باپ کے سامنے ان کے مو پر کھڑے ہوکر ان کو تکلیف نہیں دیں گے ۔ہم دونوں اللہ کے لیے اور سکون کے لیئے برکات کے لئے ابھی ہی نکلنا چاھتے ہیں اور توبہ کرلی ہے پچھلے گناہوں پر بھی؟ تو اس توبہ کو قائم رکہنے کے لئے کیا یہ نکاح جائز اور بہترین رستہ ہے ؟ جلد سے جلد بتائیں۔

    جواب نمبر: 604996

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:880-293/sn=11/1442

     اگر آپ شرعی گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب وقبول کے ساتھ اپنے کزن سے نکاح کرلیتی ہیں تو نکاح صحیح اور منعقد ہوجائے گا، اس کے بعد آپ دونوں کا ملنا جلنا شرعا جائز ہوجائے گا؛ لیکن کسی لڑکی کے لئے ولی کی رضامندی کے بغیر اقدامِ نکاح کرنا شرعا نا پسندیدہ ہے ، ہمارے نبی محمد ﷺ نے اسے سخت ناپسند فرمایا ہے ؛ اس لئے آپ اپنے والدین کو کسی طرح بلاتاخیر نکاح پر راضی کرلیں اور انہی کی رضامندی سے نکاح کریں، اسی میں خیر وبرکت کی زیادہ امید ہے ،نیز والدین کی رضامندی سے جونکاح کیا جائے عموما وہی زیادہ پائیدار رہتا ہے ۔

    عن عائشة، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: أیما امرأة نکحت بغیر إذن ولیہا فنکاحہا باطل، فنکاحہا باطل، فنکاحہا باطل الحدیث (سنن الترمذی، رقم:1102) قال ابن الملک: أی علی صدد البطلان ومصیرہ إلی البطلان إن اعتراض الولی علیہا إذا زوجت نفسہا من غیرکفؤ. (مرقاة المفاتیح مع مشکاة المصابیح، رقم:3131)

    (فنفذ نکاح حرة مکلفة بلا) رضا (ولی) والأصل أن کل من تصرف فی مالہ تصرف فی نفسہ وما لا فلا (ولہ) أی للولی (إذا کان عصبة) ولوغیر محرم کابن عم فی الأصح خانیة، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضی (الاعتراض فی غیرالکفء) فیفسخہ القاضی (الدرالمختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 4:156، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند