معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 604295
میاں بیوی کا ایک دوسرے کو كسی اور نام سے پكارنا؟
ایک جوڑا ہے ، ان کی عادت ہے ، وہ ایک دوسرے کو میرا بچہ کتاہے، کیا ایسا کہہ سکتے ہیں؟
جواب نمبر: 604295
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:754-579/N=9/1442
میاں بیوی کے درمیان وِلاد کا رشتہ نہیں ہوتا، یعنی: دونوں میں کوئی، دوسرے کی اولاد (بیٹی یا بیٹا ) نہیں ہوتا ؛ لہٰذا کسی جوڑے کا آپس میں ایک دوسرے کو ” میرا بچہ“ یا ”میری بچی“کہہ کر پکارنا ممنوع وناجائز ہے ، دونوں کو اپنی اس عادت سے باز آنا چاہیے اگرچہ اس صورت میں طلاق یا ظہار وغیرہ کا حکم نہ ہوگا، یعنی: دونوں ایک دوسرے پر حرام نہ ہوں گے۔
مستفاد: قال اللّٰہ تعالی في شأن المظاھرین: ﴿وإنھم لیقولون منکراً من القول وزوراً، وإن اللّٰہ لعفو غفور﴾ (سورة المجادلة، رقم الآیة: ۲)۔
وقال تعالٰی أیضاً في الظھار والتبني وغیرھما: ﴿ذلکم قولکم بأفواھکم، واللّٰہ یقول الحق وھو یھدي السبیل﴾ (سورة الأحزاب، رقم الآیة:۴)۔
ولو قال لھا: ”أنت أمي“ لا یکون مظاھراً، وینبغي أن یکون مکروھاً إلخ ھکذا في فتح القدیر (الفتاوی الھندیة،کتاب الطلاق، الباب التاسع فی الظھار، مطلب في حکم الظھار، ۱: ۵۰۷، ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔
ویکرہ قولہ:”أنت أمي“ و”یا ابنتي“ و”یا أختي“ ونحوہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الظھار، ۵: ۱۳۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
قولہ: ”ویکرہ إلخ“: جزم بالکراھة تبعاً للبحر والنھر، والذي فی الفتح: وفي أنت أمي لا یکون مظاھراً وینبغي أن یکون مکروھاً؛ فقد صرحوا بأن قولہ لزوجتہ: ”یا أخیة“ مکروہ، وفیہ حدیث رواہ أبو داود ” أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع رجلاً یقول لامرأتہ: یا أخیة، فکرہ ذلک ونھی عنہ“ ومعنی النھي قربہ من لفظ التشبیہ،……۔ ومثلہ أن یقول لھا: ”یا بنتي“ أو”یا أختي“ ونحوہ (رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الظھار، ۵:۱۳۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند