• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 603723

    عنوان:

    مجلسِ نکاح کے دوران لڑکی کی گواہی لینے جانا ؟

    سوال:

    نکاح کے دوران دو گواہ اور وکیل کا لڑکی کی گواہی لینے جانا کیا دُرست ہے ؟ کیوں کہ گواہ جو لڑکے والوں کے طرف سے ہوتا ہے وہ تو لڑکی کے لئے غیر محرم ہوگا۔اور کیا اللہ کے نبی محمدﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مجلسِ نکاح میں دو گواہ بھیجے تھے ؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 603723

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 633-492/D=08/1442

     مجلس نکاح جہاں (لڑکے اور لڑکی یا اس کے وکیل کے درمیان) ایجاب و قبول ہوتا ہے اس مجلس میں دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو بطور گواہ کے موجود ہونا ضروری ہے کہ یہ گواہ ایجاب و قبول کے الفاظ اپنے کانوں سے سنیں۔

    لڑکی کے پاس اجازت لینے جب جاتے ہیں یہ درحقیقت لڑکی کی طرف سے باپ کو یا اجازت لینے والے کو نکاح کرنے کا وکیل بنانا ہے جس کے لئے گواہوں کا ہونا ضروری نہیں چنانچہ بغیر گواہوں کی موجودگی کے لڑکی باپ کو یا نکاح پڑھانے والے نکاح کرنے کا وکیل بنادے تو یہ بھی جائز ہے لیکن اس موقعہ پر بھی گواہ بنالینا بہتر ہے یعنی گواہوں کی موجودگی میں اجازت لی جائے تو یہ بھی جائز بلکہ بہتر ہے۔

    جس طرح اجازت لینے والا اگر غیر محرم ہے تو لڑکی کی آواز اس کے کانوں میں بغیر کسی اشتباہ کے پڑنا چاہئے اسی طرح غیر محرم گواہوں کے کانوں میں بھی پڑنا چاہئے۔ لیکن عورتوں کے مجمع میں اس پر قابو پانا کہ لڑکی کی آواز میں کوئی اشتباہ نہ ہو بہت مشکل ہے۔ اسی لئے بہتر ہے کہ لڑکی کا باپ یا بھائی اجازت لے اور عورتوں کی بھیڑ سے الگ جگہ میں اجازت لے اس وقت دو محرم گواہ بھی ہوجائیں تو بہتر ہے۔

    واضح رہے کہ اجازت کے وقت کے گواہ صرف اجازت کے گواہ ہیں اسی لئے ضروری نہیں کہ یہی مجلس نکاح میں عقد نکاح کے بھی گواہ بنائے جائیں مجلس نکاح کے گواہ دوسرے بھی ہوسکتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند