• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 602259

    عنوان:

    مَردوں كے لیے ایك سے زائد شادیوں كا حكم نہیں بلكہ بشرط عدل اجازت ہے؟

    سوال:

    سوال : ایک مولانا کے سامنے دوسرے نکاح کی بات آئی تو انہوں نے چند باتیں پیش کی، آپ سے گزارش ہے کہ محقق باتیں علم و حکمت کی رو سے بیان فرمائیں۔

    نمبر ۱: دوسرے نکاح کے مسئلہ مسائل ہدایہ میں جو بیان ہیں وہ عرب ماحول کے لئے بیان ہیں کیونکہ وہاں دوسرا نکاح عام ہے ہندوستان میں نہیں۔

    نمبر ۲: پہلے نکاح کے وقت پہلی بیوی کو یہ شرط رکھنا جائز ہے کہ آپ دوسرا نکاح نہیں کروگے ، چہ جائکہ اگر دوسرا نکاح کر لے تب بھی نکاح دونوں باقی رہے گا؟

    نمبر ۳: عرب میں دوسرا نکاح اس لئے جائز ہے کیونکہ پہلے نکاح کے وقت بیوی اور اس کے گھر والے بائے ڈیفالٹ ذہنی طور پر دوسرے نکاح کے لئے راضی تھے ۔

    نمبر ۴ : ہندوستان میں رکاوٹ اس لئے ہے کیونکہ یہاں پہلی شادی کے وقت بیوی اور اس کے گھروالے بائے ڈیفالٹ دوسرے نکاح کے لئے راضی نہیں ہیں یعنی نمبر ۲کی طرح شرط از خود واقع ہے ۔

    نمبر ۴ : مثال دے کر بتایا کہ اگر آپ پہلے نکاح سے قبل لڑکی یا لڑکی کے باپ سے کہتے کہ میں دوسرا نکاح بھی کروں گا تو کیا وہ لوگ اپنی لڑکی دیتے ؟ یعنی نمبر ۲والی شرط ذہنی اور فطری طور پر واقع ہے ۔ نمبر ۴: دوسرا نکاح کرنا تو پہلی بیوی مو زندہ لاش بنانے کے مترادف ہے ۔

    نمبر ۵: میرا ذاتی سوال یہ کہ کسی ضرورت کی وجہ سے دوسرا نکاح کرنا ہی ہو تو بیوی کی ذہن سازی کیسے کی جائے ؟

    برائے مہربانی علم و حکمت کی روشنی ڈالیں اور تسلی بخش جواب سے نوازیں۔ سوال نمبر ۲) کیا عمامہ دائیں سے بائیں جانب گھماتے ہوئے باندھنا سنت ہے یا بائیں سے دائیں جانب یا پھر کسی بھی طرح باندھ سکتے ہیں، نیز عمامہ باندھنا سنت عادت ہے یا سنت عبادت؟ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 602259

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 402-82T/D=06/1442

     کسی مسلمان مرد کے لئے ایک سے زاید چار عورتوں تک سے شادی کرنے کی اجازت ہونا اسلام کا قانون ہے جو قرآن پاک میں مذکور ہے ہاں اگر کسی کو غالب احتمال ہو کہ کئی بیویاں رکھنے میں عدل نہ کرسکے گا تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرنا لازم ہے۔

    قرآن کا یہ حکم سارے عالم کے لئے قیامت تک کے واسطے ہے یہ حکم خالص عرب کے ماحول کے لئے مخصوص نہیں ہے۔ لہٰذا حکم کو کسی ماحول یا ملک کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں۔ ہاں ایک سے زاید بیویوں سے شادی کرنا شرط کے ساتھ مقید ہے کہ آدمی سب بیویوں کے حقوق ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہو اور کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے کا ڈر نہ ہو ۔

    (۲) بیوی شرط لگا بھی دے تو شوہر پر اس کی پابندی لازم نہ ہوگی کیونکہ شرائط کے ساتھ ایک سے زاید نکاح کرنا مرد کا حق ہے۔

    (۳، ۴، ۵) مردوں کی معاشی کمزوری اخلاقی زبوں حالی اور ملکی ماحول و معاشرت سے عورت و مرد کا متاثر ہونا ایسی وجوہات ہیں کہ نکاح ثانی کرنے کی صورت میں خوشگوار ماحول کا پیدا ہونا اور منصفانہ برتاوٴ کرنا دشوار ہو جاتا ہے اس لئے بہت سوچ سمجھ کر سب کے حقوق معلوم کرکے انصاف کے طریقے کو سیکھ کر دوسری شادی کے لئے قدم اٹھانا چاہئے، اور کسی پہلو سے بھی ناانصافی یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو پھر احتراز کرنا بہتر ہے۔

    چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (سورہ نساء) یعنی اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو ایک ہی بیوی پر بس کرو یا جو کنیز شرعی اصول کے مطابق تمہاری ملک ہو اس سے گذارہ کرو۔

    اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ نکاح اسی صورت میں جائز اور مناسب ہے جب کہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کرسکے۔ حاصل یہ کہ اگرچہ قرآن کریم نے چار عورتوں تک نکاح میں رکھنے کی اجازت دیدی اور اس حد کے اندر جو نکاح کئے جائیں گے وہ صحیح اور جائز ہوں گے لیکن متعدد بیویاں ہونے کی صورت میں ان میں عدل و مساوات قائم رکھنا واجب ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ عظیم ہے مزید تفصیل کے لئے معارف القرآن: 2/294، سورہ نساء کا مطالعہ کریں ۔

    (۶) عمامہ باندھنے کے سلسلے میں صراحت نہیں ملی لیکن داہنی جانب کا اختیار کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اس لئے داہنے سے بائیں جانب لے جائیں جیسے کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ عمامہ سنت عادت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند