• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 601770

    عنوان:

    والدین راضی نہ ہوں تو كیا لڑكی خود نكاح كرسكتی ہے؟

    سوال:

    سوال : میری ایک دوست ہے جو تینتیس سال کی ہے۔ وہ سرکاری ٹیچر ہے۔ اور والدین نے اس کا نکاح صرف اس وجہ سے نہیں کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس کی کمائی کھا رہے ہیں جبکہ ان کے والدین کے پاس مختلف آمدن کے ذرائع موجود ہیں۔ پھر بھی وہ ان کے پیسے زبردستی اس سے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا اے ٹی ایم تک اپنے پاس رکھا ہے اور وہ بعد میں ان سے مانگنے کے لیے مجبور ہو جاتی ہے۔ نیز وہ ایک طلاق شدہ ایک شخص کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے جو اس سے عمر میں دس سال بڑا ہے اور اس شخص کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے۔مگر اس کے گھر والے اس کے لیے بھی راضی نہیں ہیں۔ مگر اس نے استخارہ کروایا جہاں اسے یہ جواب ملا کہ یہ شادی آپ کے لیے مبارک ہے۔ اب برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا وہ از خود شادی کر سکتی ہے یا نہیں اور کیا وہ اپنی تنخواہ اپنے والدین کو روک سکتی ہے یا نہیں۔ وہ شخص جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے ملازم ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔

    جواب نمبر: 601770

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:336-1248/N=5/1442

     (۱): صورت مسئولہ میں خاتون کو چاہیے کہ خاندان کی بڑی بوڑھی خواتین کو درمیان میں ڈال کر والدین کو اپنے رشتہ کے لیے آمادہ کرے، پھر والدین کی سرپرستی میں اُن کے انتخاب کے مطابق رشتہ کرے، والدین سے چھپ کر از خود اپنا رشتہ نہ کرے، اس میں خطا کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے اور اپنی، والدین اور خاندان کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔

    (۲): ٹیچر خاتون کو جو تنخواہ ملتی ہے، وہ شرعاً اُسی کی ہوتی ہے اور وہ اُس میں سے جو کچھ اپنے والدین کو دیتی ہے، یہ اُس کی جانب سے والدین کی مالی خدمت وتعاون ہے، اس میں بلا کسی معقول وجہ، والدین کی طرف سے خاتون پر جبر نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر والدین بیٹی کی مصلحت میں اُس کی تنخواہ اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں اور اس میں اُن کا ذاتی کوئی نفع نہیں ہے تو بیٹی کو والدین کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند