• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 601577

    عنوان:

    عاقلہ بالغہ لڑکی کا کسی لڑکے سے از خود نکاح کرلینا

    سوال:

    میری عمر ۲۶سال ہے، میرا نو سال سے ایک لڑکی کے ساتھ دوستانہ تعلق ہے، اس لڑکی کی عمر ۲۵سال ہے، میں نے اس کے گھر رشتے کی بات کی ، وہ راضی ہیں، لیکن کچھ ذاتی مسئلوں کی وجہ سے وہ بات کو کچھ سال آگے نہیں بڑھا سکتے، میں نے اپنے گھروالوں کو اس رشتہ کے لیے راضی کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ ”لو میریج‘’‘ کے حق میں نہ ہونے کی وجہ سے راضی نہیں ہیں، ہمارے گھروالے میری شادی نہیں کروارہے ہیں، اور اتنا عرصہ ساتھ رہنے کے بعد ہم الگ نہیں ہونا چاہتے، گھروالوں بھی احساس نہیں ہے، ہماری عمر بڑھ رہی ہے، ہر انسان کی کچھ ضروریات ہوتی ہیں، ایسے میں گناہ کا بھی ڈر ہے، اس وجہ سے میں نے اپنے دو دوستوں کی موجودگی میں نکاح کرلیاہے، نکاح ایسے کیا کہ میں نے اپنے دو دوستوں کو بلایا، اور لڑکی سے ایجاب و قبول کرایا کہ میں زید بن عمر کا نکاح آپ نور بنت علی سے کرتا ہوں ، کیا آپ کو قبول ہے؟ ایسے میں نے تین بار پوچھا اور اس نے ہاں میں جواب دیا، پھر میرے ایک دوست نے مجھ سے ایسے پوچھا کہ زید بن عمر میں آپ کا نکاح نور بنت علی سے حق مہر ....غیر معجل میں کرتاہوں، کیا آپ کو قبول ہے ؟ ایسے مجھ سے میرے دوست نے تین بار پوچھا اور اس کے بعد میں نے انٹرنیٹ سے خطبہ پڑھ دیا ، کیا ایسے نکاح ہوگیا؟

    جواب نمبر: 601577

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:293-218/N=5/1442

     صورت مسئولہ میں اگر زید بن عمر اور نور بنت علی دونوں عاقل وبالغ ہیں اور زید بن عمر نے نور بنت علی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب وقبول کے ساتھ نکاح کیا ہے اور دونوں کا ایجاب وقبول گواہوں نے سنا ہے تو یہ نکاح شرعاً ہوگیا اور دونوں باہم میاں بیوی ہوگئے ؛ البتہ کسی عاقلہ بالغہ لڑکی کا اپنے ولی کی اجازت وسرپرستی کے بغیر اپنا نکاح از خود کرلینا اسلامی معاشرہ میں برا اور ناپسندیدہ ہے ۔ اور اگر لڑکا برادری میں لڑکی سے اس قدر فروتر ہے کہ عرف میں ایسا نکاح لڑکی کے اولیاء کے لیے باعث ننگ وعار ہوتا ہے تو لڑکی کے اولیا کو شرعی پنچایت کے ذریعے یہ نکاح فسخ کرانے کا حق ہوگا۔

    ( فنفذ نکاح حرة مکلفة بلا )رضا ( ولی )، والأصل أن کل من تصرف في مالہ تصرف في نفسہ وما لا فلا، ( ولہ )أي: للولي ( إذا کان عصبة)… (الاعتراض في غیر الکفء) فیفسخہ القاضي إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، باب الولي ۴: ۱۵۵- ۱۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۸: ۱۸۶، ۱۸۹، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

    قولہ:( ولایة ندب)أي:یستحب للمرأة تفویض أمرھا إلی ولیھا؛ کی لا تنسب إلی الوقاحة، بحر، وللخروج من خلاف الشافعي فی البکر (رد المحتار، کتاب النکاح، باب الولي، ۴: ۱۵۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۸: ۱۸۵، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند