معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 601327
لڑكی سے اجازت لینے كا طریقہ اور دونوں طرف سے گواہوں كی تعداد كیا ہے؟
میرا سوال یہ ہے کہ لڑکی طرف سے کتنے گواہ ہوتے ہیں اور لڑکے کی طرف سے کتنے اور لڑکی کو نکاح سے پہلے کس الفاظ سے اجازت لے ؟ تفصیل بتائیں، نیز بتائیں کہ صحیح وکیل کسے کہتے ہیں؟
جواب نمبر: 601327
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 235-61T/D=04/1442
جس مجلس میں نکاح کا ایجاب و قبول کیا جا رہا ہے اس مجلس میں کم از کم دو مسلمان مرد یا ایک مسلمان مرد اور دو عورتیں بطور گواہ کے موجود ہونا ضروری ہے جو خود اپنے کانوں سے ایجاب و قبول کے الفاظ سنیں ، گواہ خواہ لڑکے کی طرف سے ہوں یا لڑکی کی طرف سے۔
اگر مجلس نکاح میں لڑکا لڑکی موجود ہوکر ایجاب و قبول خود کر رہے ہیں مثلاً گواہوں کے سامنے لڑکا لڑکی سے مخاطب ہوکر کہے میں نے تم سے نکاح کیا، اس کے جواب میں لڑکی کہے میں نے قبول کیا، اور گواہوں نے یہ سب سن لیا تو نکاح ہوگیا، اس صورت میں کوئی وکیل نہیں ہے نہ وکیل کی ضرورت ہے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہ ہو جیسا کہ ہمارے معاشرہ میں بالعموم ہوتا ہے بلکہ وہ نکاح خواں کو اپنا وکیل بنادے پھر نکاح خواں بحیثیت وکیل کے مجلس نکاح میں لڑکے سے کہے میں نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح تمہارے ساتھ منعقد کر دیا، تم نے قبول کیا، لڑکا کہے قبول کیا۔ اس صورت میں لڑکی کی طرف سے وکیل ہے مگر لڑکا خود موجود ہے اس لئے اس کی طرف سے کسی وکیل کی شرعاً ضرورت نہیں ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ لڑکی بھی اپنا کسی کو وکیل بنادے اور لڑکا بھی کسی کو اپنا وکیل کردے خواہ دونوں کے وکیل الگ الگ ہوں یا ایک شخص دونوں کا وکیل ہو پھر یہ وکیل دونوں کا گواہوں کی موجودگی میں نکاح کردے مثلاً کہے میں نے اپنی فلاں موٴکلہ کا نکاح فلاں موٴکل کے ساتھ کردیا۔ بس ایک ہی جملہ ایجاب و قبول دونوں کی طرف سے کافی ہو جائے گا۔
نکاح سے پہلے جب لڑکی سے اجازت لی جائے تو اگر نکاح پڑھانے والا خود اجازت لے رہا ہے تو کہے فلانہ (لڑکی کا نام لے) تم مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا نکاح فلاں ابن فلاں کے ساتھ اتنے مہر میں پڑھا دوں؟
اور اگر کوئی دوسرا شخص اجازت لے رہا ہے تو بہتر ہے کہ نکاح خواں کا نام لے کہ تم فلاں مولانا صاحب کو اجازت دیتی ہو کہ تمہارا نکاح فلاں ابن فلاں کے ساتھ اتنے مہر میں پڑھا دیں؟
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند