• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 600046

    عنوان:

    دوسرا نکاح کرنے سے کیا بیوی وغیرہ کی بد دعا لگتی ہے ؟

    سوال:

    دوسرا نکاح کرنے سے ۔بیوی یا رشتہ داروں کی بد دعا لگتی ہے ؟

    جواب نمبر: 600046

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:55-34/sn=2/1442

     اسلام میں ایک مرد کے لیے بہ یک وقت چار شادیوں تک کرنے کی گنجائش ہے ، بس شرط یہ ہے کہ بیویوں کے درمیان اخراجات، رہائش اور شب گزاری میں اپنے اور بیویوں کے حسب حال”عدل“سے کام لے ؛ لہذا اگر کوئی دوسری شادی کرتا ہے اور دونوں بیویوں کے درمیان مذکورہ بالا امور میں عدل ومساوات سے کام لیتا ہے تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ اِس بنا پر پہلی بیوی کی یا رشتے داروں کی بد دعا لگتی ہے ۔ہاں اگر دوسر ے نکاح کے بعد پہلی بیوی کے ساتھ ”عدل“ نہ کرے ، شریعت کے مطابق اس کے ساتھ شب باشی نہ کرے اور نہ ہی نفقہ سکنی میں عدل سے کام لے تو ظاہر ہے کہ یہ ظلم ہے اور ظالم کے خلاف مظلوم کی بد دعا ضرور لگتی ہے۔ نیز ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس آدمی کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل رہتا ہو (دونوں کے درمیان شریعت کے مطابق برابری نہیں کرتا) تو وہ قیامت کے روز اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا ۔

    ((وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلَّا تَعُولُوا)) (النساء: 3) عن أبی ہریرة، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من کانت لہ امرأتان فمال إلی إحداہما، جاء یوم القیامة وشقہ مائل (سنن أبی داود 2/ 242،باب فی القسم بین النساء)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند