معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 58798
جواب نمبر: 58798
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 349-349/Sd=7/1436-U (۱) جی ہاں! دو بہنوں یا دو بھائیوں کی دو مختلف الگ الگ بیٹیوں کا ایک مرد سے نکاح حلال ہے۔ قال في الہندیة: والأصل أن کل امرأتین لو صورتا إحداہما من أي جانب ذکرًا، لم یجز النکاحُ بینہما برضاع أو نسب لم یجز الجمع بینہما (الہندیة: ۱/۳۴۳) (۲) ایک بہن کا نکاح مثلاً: زید کے ساتھ اور دوسری بہن کا نکاح زید کے سوتیلے بیٹے (زید کی دوسری بیوی کے بیٹے) کے ساتھ جائز ہے، صورت مسئولہ میں سسر اور سوتیلے بیٹے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ دو بہنوں کا کس کے سسر اور کس کے سوتیلے بیٹے سے نکاح کا حکم معلوم کرنا چاہتے ہیں، وضاحت کے ساتھ سوال کریں۔ (۳) پرنانی کی بیٹی سے نکاح حرام ہے، وأما الخالات، فخالتہ لأب وأم وخالتہ لأب وخالتہ لأم وخالات أبائہ وأمہاتہ․ (الہندیة: ۱/۳۳۹، الباب الثالث فی بیان المحرمات) (۴) شوہر کے فوت ہونے کے بعد دیورسے نکاح جائز ہے اور بیٹے کا نکاح دیور کی بیٹی سے مطلقا جائز ہے، شوہر کے انتقال سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ (۵) ایک شخص کے نکاح میں بھانجی اور خالہ اسی طرح بھتیجی اور پھوپی جمع نہیں ہوسکتیں؛ البتہ بیوی کے انتقال کے بعد اس کی خالہ یا پھوپی سے نکاح کرنا جائز ہے۔ قال الحصکفي: وحرم الجمع بین المحارم نکاحا أي عقدًا صحیحًا بین امرأتین أیتہما فرضت ذکرًا لم تحل لأخری أبدًا لحدیث مسلم: ”لا تنکح المرأة علی عمتہا“ وہو مشہور یصلح مخصصًا للکتاب․ قال ابن عابدین: قولہ: ”لا تنکح المرأة علی عمتہا“ تمامہ: ولا علی خالتہا ولا علی ابنة أخیہا ولا علی ابنتہ أختہا (الدر المختار مع رد المحتار: ۴/ ۱۱۶-۱۱۷، فصل في المحرمات)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند