معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 58659
جواب نمبر: 58659
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 384-349/Sn=6/1436-U
اگر آپ کی بیوی کے اندر کوئی اخلاقی عیب نہیں ہے، وہ آپ کی اطاعت کرتی ہے، نیز آپ کے والد اور والدہ کا احترام کرتی ہے، ان کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرتی، آپ کے والد بلاکسی وجہ شرعی کے طلاق دینے کو کہتے ہیں تو صورتِ مسئولہ میں آپ پر طلاق دینا واجب نہیں ہے، شرعاً طلاق ایک سخت ناپسندیدہ چیز ہے، ابوداوٴد کی ایک روایت میں ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق انتہائی مبغوض چیز ہے، أبغضُ الحلال عند اللہ تعالی الطلاق اس لیے حتی الامکان اس سے احتیاط کرنا چاہیے، نیز اگر بیوی آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا آپ اپنی ضرورت کے تحت اسے اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں تو بلابھی سکتے ہیں؛ اس کی وجہ سے ان شاء اللہ آپ گنہ گار نہ ہوں گے، اپنے والد اور گھر والوں کو نرمی کے ساتھ سمجھاتے رہیں، اگر ہوسکے تو خاندان کے بزرگ کو بیچ میں لاکر اپنے والد کو راضی کرلیں۔ ”مرقاة“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ․․․․ ولا تعقن والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الحدیث کے تحت ہے: قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأکمل أیضا أی: لا تخالف واحدا منہما، وإن غلا في شیء أمرک بہ، وإن کان فراق زوجة أو ہبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلا یلزمہ طلاق زوجة أمراہ بفراقہا، وإن تأذیا ببقائہا إیذاء شدیدا؛ لأنہ قد یحصل لہ ضرر بہا، فلا یکلفہ لأجلہما؛ إذ من شأن شفقتہما أنہما لو تحققا ذلک لم یأمراہ بہ فإلزامہما لہ مع ذلک حمق منہما، وَلَا یُلْتَفَتُ إلیہ․ (مرقاة مع المشکاة: ۱/۱۳۳، باب الکبائر وعلامات النفاق) وانظر: بوادر النوادر (۲/۴۸۳،ط: مکتبہ جاوید دیوبند) و”فتاوی محمودیہ“ (۱۲/۱۶۲، ط: ڈابھیل)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند