• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 58659

    عنوان: شادی كے دو ہفتے بعد گھرمیں لڑائیاں ہونے لگیں‏، والد صاحب طلاق دینے کو کہتے ہیں ، میں كیا كروں؟

    سوال: میری شادی ہوئے دوسال ہونے جارہے ہیں اور میری شادی سب کی پسند سے تھی، شادی کے دو ہفتے بعد ہی میرے گھر میں لڑائیاں شروع ہوگئیں ، میرے والد نے ہر بات پہ مجھے اور میری بیگم کو گالیاں دیتے ، دانٹتے اور بے عزتی کرتے تھے، اور میں ان کے سامنے کچھ نہیں بول سکتاتھا ، میری بیوی میرے پاس روتی رہتی تھی اور میں باپ کی غلط بات کو بھی نہیں روک سکتا تھا ، آخر یہ سب بڑھتے بڑھتے بہت ہوگیا اور ایک دن میری بیوی اپے والدین گھر گئی تو یہ معاملہ بڑھ گیا ،میری بیوی نے میرے سب رشتہ داروں کو میرے باپ کی ساری باتیں بتادی اور ان کی کافی رسوائی ہوئی ،مجھے کہتے تھے کہ طلاق دیدو ، پر میں نے نہیں دی، آخر فیصلہ یہ ہوا کہ علیحدہ گھر لے کر ہم دونوں رہیں ، اس کے بعد ہم ٹھیک تھے تو میری ملازمت سعودی ہوگئی اور میں یہاں آگیا ، لیکن میرے والد کہتے ہیں کہ تم اب اسے طلاق دو ، ورنہ ہمیں چھوڑدو اور نہ ہی کبھی اسے سعودی بلاؤ گے، وعدہ کرو، لیکن میں نہیں چاہتا۔ براہ کرم، میری مدد کریں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری باتیں ہیں۔ براہ کرم، فون کریں ۔

    جواب نمبر: 58659

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 384-349/Sn=6/1436-U

    اگر آپ کی بیوی کے اندر کوئی اخلاقی عیب نہیں ہے، وہ آپ کی اطاعت کرتی ہے، نیز آپ کے والد اور والدہ کا احترام کرتی ہے، ان کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرتی، آپ کے والد بلاکسی وجہ شرعی کے طلاق دینے کو کہتے ہیں تو صورتِ مسئولہ میں آپ پر طلاق دینا واجب نہیں ہے، شرعاً طلاق ایک سخت ناپسندیدہ چیز ہے، ابوداوٴد کی ایک روایت میں ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق انتہائی مبغوض چیز ہے، أبغضُ الحلال عند اللہ تعالی الطلاق اس لیے حتی الامکان اس سے احتیاط کرنا چاہیے، نیز اگر بیوی آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا آپ اپنی ضرورت کے تحت اسے اپنے پاس بلانا چاہتے ہیں تو بلابھی سکتے ہیں؛ اس کی وجہ سے ان شاء اللہ آپ گنہ گار نہ ہوں گے، اپنے والد اور گھر والوں کو نرمی کے ساتھ سمجھاتے رہیں، اگر ہوسکے تو خاندان کے بزرگ کو بیچ میں لاکر اپنے والد کو راضی کرلیں۔ ”مرقاة“ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ․․․․ ولا تعقن والدیک وإن أمراک أن تخرج من أہلک ومالک الحدیث کے تحت ہے: قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأکمل أیضا أی: لا تخالف واحدا منہما، وإن غلا في شیء أمرک بہ، وإن کان فراق زوجة أو ہبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلا یلزمہ طلاق زوجة أمراہ بفراقہا، وإن تأذیا ببقائہا إیذاء شدیدا؛ لأنہ قد یحصل لہ ضرر بہا، فلا یکلفہ لأجلہما؛ إذ من شأن شفقتہما أنہما لو تحققا ذلک لم یأمراہ بہ فإلزامہما لہ مع ذلک حمق منہما، وَلَا یُلْتَفَتُ إلیہ․ (مرقاة مع المشکاة: ۱/۱۳۳، باب الکبائر وعلامات النفاق) وانظر: بوادر النوادر (۲/۴۸۳،ط: مکتبہ جاوید دیوبند) و”فتاوی محمودیہ“ (۱۲/۱۶۲، ط: ڈابھیل)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند