• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 57622

    عنوان: ولیمہ کے لیے شرعاً بڑي دعوت اور لمبا چوڑا نتظام ضروری نہیں

    سوال: کچھ ہی مہینوں میں میری شادی ہونے والی ہے، ہم نے نکاح کرنے اور اسی دن ولیمہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میرا سوال ولیمہ کے خرچ کے بارے میں ہے، کیوں کہ ہم دونوں فیملی کے لیے دعوت کا انتظام کررہے ہیں، کیا ہم دلہن کی طرف سے کچھ مدد لے سکتے ہیں اگر وہ اس کے لیے راضی ہوں تو ؟کیا یہ حلال ہے؟جزاک اللہ

    جواب نمبر: 57622

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 235-200/Sn=4/1436-90

    نکاح کے بعد بیوی سے ملنے کے دوسرے دن ولیمہ کرنا لڑکے کے حق میں مسنون ہے نہ کی لڑکی والوں کے لیے، ولیمہ کے لیے شرعاً بڑي دعوت اور لمبا چوڑا نتظام ضروری نہیں ہے؛ بلکہ اگر دو چار افراد کو بھی سنت کی نیت سے کھلادیا تو سنت پر عمل ہوجائے گا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام الموٴمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت محض ستو اور کھجور اور پنیر وغیرہ رفقاء کو کھلاکر ولیمہ کیا تھا (سیرة النبی ۳/۳۴۵)؛ لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ کے پاس جو کچھ استطاعت ہے اس کے مطابق سادے طریقے پر نام ونمود کے بغیر اپنے رشتے داروں اور دوستوں کو کھلادیں، لڑکی والوں سے رقم نہ لیں، اگر وہ رواج سے مجبور ہوکر یا شرما حضوری میں بہ ظاہر رضامندی سے کچھ دینے کی پیشکش کریں تب بھی نہ لیں؛ اس لیے کہ یہاں حقیقی ودلی رضامندی نہیں ہوتی، اور حدیث میں آیا ہے کہ بلا دِلی رضامندی کے کسی کا مال لینا شرعاً جائز نہیں ہے، ألا لا تظلموا ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، إنہ لا یحل مال امرئ إلاّ بطیب نفس منہ (مسند أحمد، رقم ۲۰۵۹۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند