• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 57589

    عنوان: دوسری بیوی کے حقوق

    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ ایک شادی شدہ بچوں والاآدمی پہلی بیوی کے رہتے دوسری شادی کرے توشریعت کے مطابق کیا حکم ہے ؟ میں دوسری بیوی بن گئی ہوں شادی کے اگلے دن ولیمہ ہوا،ولیمے کے اگلے دن سے ہی میرے شوہرنے ایک رات اپنی پہلی بیوی کے ساتھ اورایک رات میرے پاس سونے سونا شروع کردیا-وہ شام7بجے آفس سے آتے سیدھے اپنی پہلی بیوی کے پاس چلے جاتے ہیں سارا وقت ادھر گزارتے ہیں جس رات میرانمبرہوتا ہے تورات 12بجے میرے پاس آتے ہیں اورصبح بنامنھ دھوئے پہلی بیوی کے پاس چلے جاتے ہیں-میری ان سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی-میرے شوہرکہناہے وہ میرے بچوں کی ماں ہے اس کا زیادہ حق ہے -کیا اللہ کا یہی فرمان ہے ؟

    جواب نمبر: 57589

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 463-461/L=5/1436-U شریعت نے ایک شخص کوبیک وقت چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے بہ شرطے کہ وہ ان میں عدل وانصاف کرے اگر اس کو عدل وانصاف نہ کرنے کا اندیشہ ہو یا کسی اور حق تلفی کا غالب گمان ہو، تو ایک ہی عورت سے شادی کرے: قال اللہ تعالیٰ: فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ (القرآن) آپ نے اپنے شوہر کا جو معمول تحریر کیا ہے شرعاً وہ درست نہیں بلکہ ہردو بیویوں کے پاس رات گذارنے میں برابر وقت دینا ضروری ہے، اگر وہ اپنی پہلی بیوی کے پاس ۷/ بجے جاتے ہیں تو آپ کے پاس بھی اسی وقت آنا ضروری ہے اور کسی ایک کی باری اور نمبر کے دن دوسری بیوی کے ہاں بغیر عذر شرعی جانے کی اجازت نہیں ہے: ویقیم عند کل واحدة منہن یومًا ولیلةً لکن إنما تلزمہ التسویة فی اللیل حتی لو جاء للأولی بعد الغروب وللثانیة بعد ا لعشاء، فقد ترک القسم، ولا یجامعہا فی غیر نوبتہا، وکذا لا یدخل علیہا إلا لعیادتہا، ولو اشتدّ (الدر مع الرد: ۴/۳۸۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند