• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 57304

    عنوان: عشرت نامی لڑکی کا نکاح زاہد نامی لڑکے سے کیاگیا۔ نکاح ایسے ہوا کہ عشرت موجود نہیں تھی اس کی بڑی بہن نصرت کو بیٹھا کر عشرت کا نام لے کر قبول قبول کرایا گیا

    سوال: کیا کہتے ہیں علماء اس مسئلہ کے بارے میں۔ عشرت نامی لڑکی کا نکاح زاہد نامی لڑکے سے کیاگیا۔ نکاح ایسے ہوا کہ عشرت موجود نہیں تھی اس کی بڑی بہن نصرت کو بیٹھا کر عشرت کا نام لے کر قبول قبول کرایا گیا اور انگوٹھا کا نشان بھی نصرت کا لگوایا گیا۔ عشرت نکاح میں موجود ہی نہیں تھی۔ کیوں کہ عشرت گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ وہ کہیں اور نکاح نہ کرلے اور کر لے تو پھر بھی اسے واپس لے کر آیا جاسکے، اس لیے ایسا نکاح کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اب نکاح عشرت کا ہوا یا نصرت کا کیوں کہ ایجاب و قبول اور انگوٹھا کا نشان نصرت نے کیا۔ مگر نام عشرت کا استعمال کیا گیا۔ ایسی صورت میں نکاح ہوا کہ نہیں؟ اگر ہوا ہے تو کس کا عشرت کا یا پھر نصرت کا؟ براہ کرم اسلامی رو سے نکاح کی حقیقت بیان کریں۔

    جواب نمبر: 57304

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 261-323/N=4/1436-U صورت مسئولہ میں ظاہر یہ ہے کہ زاہد سے نکاح ے لیے عشرت سے اجازت نہیں لی گئی اور نہ ہی وہ زاہد سے نکاح پر راضی تھی؛ اس لیے اگر عشرت بالغہ وعاقلہ ہے تو زاہد سے اس کا نکاح نہیں ہوا اور نصرت اگر شادی شدہ تھی یا ایجاب یا قبول میں اس کی طرف حسی طور پر اشارہ نہیں کیا گیا تھا تو زاہد سے اس کا بھی نکاح نہیں ہوا۔ اور اگر وہ غیرشادی شدہ تھی اور عشرت کا نام لے کر نصرت کی طرف حسی طور پر انگلی وغیرہ سے اشارہ کیا گیا تھا یعنی: نصرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ اس عشرت کا نکاح زاہد کے ساتھ اتنے مہر میں کردیا تو البتہ زاہد کا نکاح نصرت کے ساتھ ہوگیا اور زاہد اور نصرت دونوں باہم میاں بیوی بن گئے وکذا لو غلط في اسم بنت إلا إذا کانت حاضرة وأشار إلیہا فیصح (درمختار مع الشامي: ۴/۹۷،مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، قولہ: ”إلا إذا کانت حاضرة الخ“ راجعٌ إلی المسألتین أي فإنہا لو کانت مشارًا إلیہا وغلط في اسم أبیہا أو اسمہا لا یضر لأن تعریف الإشارة الحسیة أقوی من التسمیة کما فيالتسمیة من الاشتراک لعارض فتلغو التسمیة عندہا کما لو اقتدیت بزید ہذا فإذا ہو عمرو فإنہ یصح (شامي)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند