• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 56728

    عنوان: مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میرے شوہر دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں ، وہ میرے حقوق ادا کررہے ہیں اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد بھی میرے حقوق ادا کریں گے ، لیکن میں راضی نہیں ہوں ، پھر بھی تو کیاان کو میری اجازت کی ضرورت ہے ؟اور کیا وہ میری اجازت کے بغیر بھی دوسری شادی کرسکتے ہیں؟ اور کیا ان کو شادی سے پہلے یہ بتانا چاہئے تھا؟ اور دوسرا یہ بھی بتائیں کہ دوسری شادی کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

    سوال: مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میرے شوہر دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں ، وہ میرے حقوق ادا کررہے ہیں اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد بھی میرے حقوق ادا کریں گے ، لیکن میں راضی نہیں ہوں ، پھر بھی تو کیاان کو میری اجازت کی ضرورت ہے ؟اور کیا وہ میری اجازت کے بغیر بھی دوسری شادی کرسکتے ہیں؟ اور کیا ان کو شادی سے پہلے یہ بتانا چاہئے تھا؟ اور دوسرا یہ بھی بتائیں کہ دوسری شادی کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ براہ کرم، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

    جواب نمبر: 56728

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 81-47/Sn=2/1436-U (۱) اگر آپ کے شوہر کو اپنے اوپر یہ اعتماد ہے کہ دوسری شادی کرنے کے بعد آپ کے درمیان اور نئی بیوی کے درمیان عدل (برابری) کرلیں گے تو ان کے لیے آپ کو بتائے بغیر بھی شرعاً نکاح کرنا صحیح ہے، ایسی صورت میں آپ کو بھی اعتراض نہ کرنا چاہیے: ”في البزازیة: لہ امرأة أو جاریة فأراد أن یتزوج أخری، فقالت اقتل نفسي، لہ أن یأخذ ولا یمتنع؛ لأنہ مشروع قال اللہ تعالیٰ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاةَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ“ (الفتاوی البزازیة علی الہندیة، نوع آخر: مباشرة النکاح في المساجد مستحب ۴/۱۵۵، ط: زکریا) (۲) عورت ہروقت ہمبستری کے قابل نہیں ہوتی،اسے لازمی طور پر ایک مہینے میں کچھ دن ایسے آتے ہیں جن میں مرد کے لیے عورت کے ساتھ ہمبستری کرنا شرعاً جائز نہیں ہوتا، اس طرح حمل کے ایام میں بھی عورت اور جنین (بچہ) کی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ شوہر کے ساتھ ہمبستر نہ ہو خصوصاً چار مہینے سے پہلے اور ساتویں مہینے کے بعد، نیز وضع حمل کے بعد بھی کچھ مدت تک عورت کو مرد کی صحبت سے پرہیز کرنا لازمی ہے، اب ان اوقات میں عورتوں کے لیے تو یہ قدرتی موانع واقع ہوجاتے ہیں، مگر خاوند کے لیے کوئی امر مانع نہیں ہوتا، اب اگر کسی مرد کو شہوت کا غلبہ ان اوقات میں ہو تو سوائے تعدد (دوسری بیویوں کے) اس کا کوئی علاج نہیں ہے، نیز کبھی عورت بیمار ہوتی ہے یا بانجھ ہوتی ہے جب کہ مرد کو اولاد کی بڑی خواہش ہوتی ہے تو اس کا حل بھی تعدد ازدواج میں ہی ہے، اس کے علاوہ تعدد ازدواج کی بے شمار مصلحتیں اور فوائد ہیں؛ البتہ حتی الامکان مرد کو چاہیے کہ ایک سے زائد نکاح سے پرہیز کرے خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں تعدد ازدواج کا زیادہ رواج نہیں ہے؛ اس لیے ایک سے زیادہ نکاح کرنے میں بسا اوقات زندگی کا سکون چھن جاتا ہے، دو سوکنوں کے ساتھ گھر بسانا اور ان کے ساتھ نباہ کرنا بہت مشکل کام ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”موجودہ حالات میں بغیر سخت مجبوری کے دوسرا نکاح ہرگز نہ کرنا چاہیے“ (اسلامی شادی، ص:۲۵۵) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ”دو بیویوں میں نباہ حکومت کرنے سے زیادہ مشکل ہے“ (حوالہ سابق، ص:۲۵۳) اس کی مزید تفصیل کے لیے ”اسلامی شادی“ از حضرت تھانوی رحمہ اللہ اور ”احکام اسلام عقل کی نظر میں“ کا مطالعہ بہت ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند