• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 56605

    عنوان: اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی کیسے کریں؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مشائخ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج جہاں دیکھیں وہاں شادیاں اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہو رہی ہیں اور ایسے میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسلام شادیوں کے بارے میں ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے کچھ ایسی رسمیں بھی ہیں کہ جس کو عوام اسلام کا جزء مان رہی ہے ۔ تو میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ آخر اسلام ہمیں شادی کے بارے میں کیا راہنمائی کرتا ہے ؟ (۱) کیسے ہم شادی کریں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو؟ (۲) مہر کتنی ہونی چائے ؟ (۳) ولیمہ کے کیا احکام ہیں؟ (۴) لڑکی کی طرف سے جو جہیز کے نام پر سامان دیا جاتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے ؟ (۵) شادی کے بعد شوہر پر بیوی کے کیا کیا حقوق لازم آتے ہیں؟ براہِ کرم جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 56605

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 82-48/Sn=2/1436-U اسلام میں نکاح محض جنسی لذت کا ذریعہ یا حصولِ مال ودولت کا طریقہ نہیں ہے؛ بلکہ اسلام نے نکاح کو عفت وعصمت اور پاکدامنی کا ذریعہ قرار دیا ہے، نیز نکاح شریعت کی نگاہ میں ایک طرح کی عبادت بھی ہے، ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: اے نواجوانوں کے گروہ! تم میں جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے، اس کو نکاح کرلینا چاہیے؛ کیوں کہ نکاح آنکھوں کو پست رکھنے اور شرم گاہ کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے۔ ”یا معشر الشباب، من استطاع البائة فلیتزوج، فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرج، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فإنہ لہ وجاء “ (البخاري، باب من لم یستطع الباء ة فلیصم، رقم ۵۰۶۶) ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہوجاتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ ”من تزوج فقد استکمل نصف الإیمان فلیتق اللہ في النصف الباقي“ (الترغیب والترہیب لقوام السنة، باب في الترغیب في النکاح، رقم: ۲۴۵۷) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: عبادت کرنے والے کی عبادت مکمل نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ شادی کرلے ”لا یتم نسک الناسک حتی یتزوّج (احیاء علوم الدین: ۲/۲۳، بیروت) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”جس کام کا شریعت میں تاکیدی یعنی وجوبی یا ترغیبی یعنی استحبابی حکم کیا گیا ہو یا اس پر ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو وہ دین کا کام ہے اور جس میں یہ بات نہ ہو، وہ دنیا کا کام ہے، اس معیار پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ وہ (نکاح) دین کا کام ہے؛ کیوں کہ شریعت میں بعض حالات میں اس کا تاکیدی اور بعض میں ترغیبی حکم ہے، اور اس پر ثواب کا وعدہ بھی ہے اور اس کے ترک پر مذمت اور شناعت بھی فرمائی گئی ہے“ الخ ۔(اسلامی شادی: ص۲۴، ط: امدادیہ سہارنپور) اسلام نے نکاح کے سلسلے میں چند چیزوں پر زور دیا: (الف) نکاح کرنے کا مقصد عفت وعصمت ہونا چاہیے نہ کہ مال ودولت، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص صرف اس غرض سے نکاح کرتا ہے کہ اس کی آنکھ نیچی رہے اور شرمگاہ محفوظ رہے اور صلہٴ رحمی کرے، اللہ تعالیٰ اس مرد کے حق میں عورت کو اور اس عورت کے حق میں مرد کو مبارک بنادے گا۔ ”من تزوج امرأة لم یرد بہا إلا أن یغض بصرہ ویحصن فرجہ أو یصل رحمہ بارک اللہ لہ فیہا وبارک لہا فیہ․ (أخرجہ الطبراني في الأوسط: رقم: ۲۳۴۲) ایک دوسری حدیث میں ہے: جو کسی عورت سے اس کی (دنیوی) عزت وحیثیت کی وجہ سے شادی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ذلت میں اضافہ کرے گا اور جو اس کے حسب ونسب کے سبب سے نکاح کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اور پست کرے گا اورجو کسی عورت سے صرف اس لیے نکاح کرتا ہے کہ اس کی آنکھ نیچی رہے اور شرمگاہ محفوظ رہے اور صلہٴ رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ ان دونوں (مرد وعورت) کو ایک دوسرے کے لیے مبارک بنادے گا“۔ ”من تزوج امرأة لعزہا لم یزدہ اللہ إلا ذلا، ومن تزوجہا لمالہا لم یزدہ اللہ إلا فقرا، ومن تزوجہا لحسبہا لم یزدہ اللہ إلا دنائة، ومن تزوج امرأة لم یرد بہا إلا أن یغض بصرہ ویحصن فرجہ أو یصل رحمہ بارک اللہ لہ فیہا وبارک لہا فیہ“ (الطبرانی فی الاوسط، رقم ۲۳۴۲) (ب) عورت کا انتخاب دین کی بنیاد پرہونا چاہیے نہ کہ مال ودولت اورحسن وجمال کی بنیاد پر ۔ (ج) نکاح میں خرچ کم سے کم کرنا چاہیے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے کہ جس کا خرچ کم سے کم اور ہلکا ہو، ”إن أعظم النکاح برکة أیسرہ موٴونة“ (مسند أحمد، رقم: ۹۴۶، ۲/۳۹۴) (د) لڑکے کی طرف سے جہیز وغیرہ کا قطعاً مطالبہ نہ ہونا چاہیے، اوپر روایت گذرچکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو شخص کسی عورت سے اس کے مال کے سبب سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو زیادہ فقر وافلاس میں مبتلا کرے گا۔ (۲) نکاح کے موقع پر اتنا مہر مقرر کرنا چاہیے جسے شوہر سہولت کے ساتھ ادا کرسکے؛ البتہ دس درہم یعنی آج کے حساب سے ۳۰/ گرام ۶۱۸ ملی گرام چاندی یا اس کی قیمت سے کم نہ ہونا چاہیے، اگر کسی کو اللہ نے حیثیت دی ہے تو بہتر ہے کہ مہرفاطمی (ایک کلو پانچ سو تیس گرام، نو سو ملی گرام چاندی) مقرر کرے، بہرحال محض تفاخر کے لیے لمبے چوڑے مہر کا رجسٹر میں لکھ دینا یہ کوئی اسلامی طریقہ نہیں ہے، ایک حدیث میں ہے: ”بہترین مہر وہ ہے جو ہلکا اور آسان ہو“، ”خیر الصداق أیسرہ“ (أخرجہ الحاکم في المستدرک، رقم: ۲۷۴۲، وقال صحیح علی شرط الشیخین) (۳) شادی کے بعد جب بیوی سے ملاقات ہوجائے (بعض علماء کے نزدیک ملاقات سے پہلے بھی) تو اس نعمت پر اظہار مسرت کے لیے شریعت نے ”ولیمہ“ کو مسنون قرار دیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی متعدد بیویوں کے نکاح میں خود بھی ولیمہ کیا ہے، نیز صحابہٴ کرام کو ولیمے کی ترغیب بھی دی، ولیمہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ بلاتکلف وبلا تفاخر اختصار کے ساتھ جس قدر میسر ہوجائے اپنے خاص لوگوں کو کھلادے، دعوتِ ولیمہ کے لیے جانور ذبح کرنا یا کوئی خاص انتظام کرنا ضروری نہیں ہے، بس شرط یہ ہے کہ خالصاً لوجہ اللہ ہو، اس میں غریبوں کو بھی مدعو کیا جائے، صرف امیروں ہی کو دعوت دینے پر اکتفاء نہ کیا جائے، نیز حسب طاقت ہو۔ اس کے لیے لون یا سودی قرض نہ لیا جائے۔ (اسلامی شادی ص:۲۳۶) وفی الفتاوی الہندیة: ”وولیمة العرس سنة، وفیھا مثوبة عظیمة وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما“ (۵/۳۴۲، زکریا) (۴) جہیز درحقیقت باپ کا اپنی بیٹی کے ساتھ صلہٴ رحمی ہے،اگر بلانام نمود کے حسب گنجائش ضرورت کی چیزیں باپ اپنی بیٹی کو دیتا ہے تو ایک امر مباح؛ بلکہ مستحسن ہے؛ لیکن شوہر کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کرنا قطعاً جائز نہیں، اوپر ایک روایت گذرچکی ہے کہ جو شخص محض مال کے لیے کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مزید تنگدست بنادے گا ”ومن تزوج لمالہا لم یزدہ الہ إلا فقرًا (أخرجہ الطبراني في الأسوط، رقم ۲۳۴۲) باقی اگر سسرال والے خلوص کامل سے شوہر کی خدمت کریں بغیر اس کے کہ شوہرکو اس کی خواہش اور طلب ہو تو یہ اچھی بات ہے۔ (مستفاد از اسلامی شادی ص: ۱۵۱، بحوالہ اصلاح الرسوم) (۵) شادی کے بعد شریعت نے شوہر اور بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے کچھ حقوق عائد کیے ہیں جن میں سے بعض تو واجبی درجے کے ہیں اور بعض اخلاقی واستحبابی، شوہر پر ضروری ہے کہ اپنی استطاعت اور عرف کے مطابق بیوی کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کرے، نیز اس پر یہ بھی لازم ہے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق بیوی کی رہائش کے لیے ایسی علاحدہ جگہ کا بند وبست کرے جو عورت کے مناسب حال اوررہن سہن کی بنیادی ضرورتوں پر مشتمل ہو، اس طرح شوہر کو چاہیے کہ بیوی کو تنگ نہ کرے، اس کے ساتھ مارپیٹ نہ کرے، اور چہرے پر تو ہرگز نہ مارے، کبھی کبھی بیوی کو اپنے رشتے داروں؛ ماں، باپ، بھائی بہن سے ملنے دے، اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو ان کے درمیان عدل (برابری) کرے، اسی طرح ولادت کے اخراجات کی شوہر کے ذمہ ہیں، نیز اگر بیوی شوہر کے گھر میں بیمار ہوجائے تو علاج ومعالجہ کے اخراجات بھی اسے برداشت کرنا چاہیے۔ فی القرآن الکریم: وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، والحدیث النبوی: عن حکیم بن معاویة القشیری عن أبیہ قال: قلت یا رسول اللہ أما حق زوجة أحدنا علیہ؟ قال: أن تطعمہا إذا طعمت وتکسوہا إذا اکتسیتَ أو اکتسبت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تہجر إلا في البیت (أبوداوٴد، رقم: ۲۱۴۲) کذا استفید من الہندیّة ۱/۵۱۶، زکریا، ورد المحتار ۵/۳۱۹ وغیرہ ط: زکریا) اسی طرح عورت پر بھی ضروری ہے کہ مباح کام میں شوہر کی اطاعت کرے، شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نہ نکلے، اس کی عدم موجودگی میں اپنی عصمت اور شوہر کے مال واسباب کی حفاظت کرے، بچوں کی صحیح نگرانی کرے، شوہر کے مال میں اسراف نہ کرے، اس سے ضرورت سے زیادہ خرچے کا مطالبہ نہ کرے، حتی المقدور شوہر کی خدمت کرے، نیز اپنی ساس سسر کی حتی المقدور خدمت کو اپنے لیے باعث سعادت اور اخلاقی فریضہ تصور کرے۔ ”فقد أخرج بن حبان عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا صلّت المرأة خمسہا وصامت شہرہا وحصنت وأطاعت بعلہا دخلت من أي أبواب الجنة شاء ت (صحیح ابن حبان، رقم: ۴۱۶۳) وفي الخانیة علی الہندیة: ولیس للمرأة أن تخرج بغیر إذن الزوج (۱/۴۴۲، ط: زکریا) وفي رد المحتار: وحقہ علیہا أن تعطیہ في کل مباح بأمرہا (۳/۲۰۸، کتاب النکاح، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند