• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 53953

    عنوان: پچھلے سال ۲۹ جون کو میں نے ایک بیوہ سے نکاح کیا تھا جو سید زادی ہے، نکاح کے بار ے میں استخارہ کیاتھا

    سوال: میرا سوال نکاح کے بارے میں ہے، پچھلے سال ۲۹ جون کو میں نے ایک بیوہ سے نکاح کیا تھا جو سید زادی ہے، نکاح کے بار ے میں استخارہ کیاتھا۔میں اورخاتون ایک گھر میں تھے اور میرے کچھ ساتھی، ایک حافظ اور چار گواہوں ساتھ تھے۔ ہمارا رابطہ ایک موبائل پہ تھا ، قاری صاحب کا گواہ ایک موبائل پہ تھا اور ہم دو نوں ایک موبائل پہ تھے ، موبائل کا لاؤڈ اسپیکر آن تھا، لڑکی اورمیرے گھروالے راضی نہیں ہوتے، کیوں کہ وہ بیوہ خاتون اور میں سید زادہ نہیں تھاتو اس کی فیملی نہیں مانتی بلکہ اس کو پہلے بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی باہر شادی کرنے پہ۔ ہمارے ساتھ کوئی گواہ نہیں تھا، چار گواہ قاری صاحب کے ساتھ تھے ، خطبہ ہوا اور ہم دونوں سے رضامندی پوچھی گئی ۔ یاد رہے ہم دونوں نے چھپ کے نکاح کیا ہے، وہ اپنے بھائی کے گھر میں اور میں اپنے گھر میں رہتاہوں، ہم نے اپنے نکاح کا اعلان نہیں کیا ، لیکن میرا دوست اور اس کی ایک دوست کو ہمارے نکاح کا پتاہے، چھپ چھپ کر ہم ایک سال سے ہمبستری بھی کررہے ہیں، اور میں اس کا خرچ بھی اٹھا رہا ہوں۔ پتا یہ کرنا ہے کہ ہمارا نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ اگر ہوا تو کیا ہم اعلان کرسکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر دوبارہ نکاح کس طرح کیا جائے؟ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 53953

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1054-842/D=9/1435-U جس مجلس میں ایجاب وقبول ہو وہاں لڑکے لڑکی یا ان کے وکیل اور دو گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے تاکہ لڑکے لڑکی کے ایجاب وقبول کو دونوں گواہ خود کانوں سے سن لیں، جو تفصیل آپ نے لکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گواہ اور امام صاحب دوسری جگہ تھے اور ایجاب وقبول کرنے والے لڑکے لڑکی دوسری جگہ اور رابطہ موبائل کے ذریعہ ہورہا تھا۔ اس طریقہ پر نکاح منعقد نہیں ہوا، لہٰذا آپ دونوں کا نکاح صحیح نہیں ہوا۔ دوسرے لڑکی کے سیدزادی ہونے کی وجہ سے جب آپ اس کے کفو نہیں ہیں اور لڑکی کے والدین راضی بھی نہیں ہے تو بھی یہ نکاح صحیح نہیں ہوگا، لہٰذا آپ اس سے علیحدگی اختیار کرلیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند