• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 52192

    عنوان: صحت نکاح کے لیے ضروری ہے کہ عورت گواہان اور شوہر کے نزدیک مجہول نہ ہو بلکہ متعین ہو

    سوال: میں پنجاب سے سنی مسلم ہوں، 2012 میں مسلم لاء کے مطابق میری شادی ہوئی تھی،اور ابھی ہماری کوئی اولاد نہیں ہے،نکاح نامہ میں دلہن کے والد کا نام ممد بشیر احمد بن رحمت اللہ مرحوم تحریر ہے، اس میں دلہن ، اس کے والد اور تین گواہوں کے دستخظ ہیں،شادی کے بعد جنوری 2014 میں یونیورسٹی میں ایم اے کے امتحان کے لیے اس کے سرٹیفیکیٹ اور ڈگریوں کو جمع کرتے وقت مجھے معلوم ہوا کہ اس کے سرٹیفکیٹ اور اس کے والد کے آدھار کارڈ میں والد کا نام ”راجو کمار بن اندر رام مرحوم“ ہے جو نکاح میں درج نام سے مختلف ہے اور اس سے الگ مذہب ہونے کی طرف اشارہ ہے، نکاح سے پہلے یا بعد میں نام اورمذہب کے بدلنے میں کوئی ثبوت نہیں ہے اور اب بھی کاغذات میں اس کے والدین کے نام غیر مسلم ہیں اور بشیر احمد نام کا کوئی شخص اس کی فیملی میں نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نکاح درست ہوگیا یا نہیں کیوں کہ نکاح میں جان بوجھ کر دھوکہ دہی سے مسلم والدین کے نام درج کئے گئے ہیں۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 52192

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 619-508/D=6/1435-U صحت نکاح کے لیے ضروری ہے کہ عورت گواہان اور شوہر کے نزدیک مجہول نہ ہو بلکہ متعین ہو اور گواہان عورت کو جانتے ہوں، پس اگر نکاح کے وقت گواہان عورت کو جانتے ہوں تو نکاح درست ہے، آدھا رکارڈ یا نکاح نامہ پر والد کے نام غلط ہونے کی وجہ سے نکاح پر کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ جہاں تک تبدیلئ مذہب کی بات ہے تو لڑکی سے معلوم کیا جائے گا اگر وہ اقرار کرتی ہے کہ میں نے نکاح سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا تو نکاح درست ہے ورنہ نہیں۔ نکاح درست ہونے کی صورت میں اگر لڑکی کے اندر کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے اور آپ اس کے ساتھ نباہ کرلیتے ہیں تو آپ اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر آپ یہ محسوس کررہے ہیں کہ آپ کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ہے اور آپ کو نباہ کرنا دشوارمعلوم ہورہا ہے تو شریعت نے آپ کو طلاق کا اختیار دیا ہے، پس سمجھ دار لوگوں کے مشورہ سے اور اللہ تعالی سے استخارہ کرکے رشتہ ختم کرسکتے ہیں؛ لیکن رشتہ ختم کرنے سے پہلے کسی مسلمان وکیل سے بھی مشورہ کرلیں گے تاکہ بعد میں پریشانی لاحق نہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند