• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 50661

    عنوان: کیا کوئی شخص اپنی منگیتر کو نکاح سے پہلے طلاق دے سکتاہے؟شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہو یا میں جانتاہوں کہ تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہو تو کیا اس سے طلاق ہوجائے گی؟

    سوال: (۱) کیا کوئی شخص اپنی منگیتر کو نکاح سے پہلے طلاق دے سکتاہے؟شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہو یا میں جانتاہوں کہ تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہو تو کیا اس سے طلاق ہوجائے گی؟ (۲) اگر کسی شخص کے ذہن میں طلاق کاخیال آئے کہ اگر میں فلاں کام کروں یا فلاں بات کہوں تواس کا مطلب طلاق ہوگا تو کیا اس سے طلاق ہوجائے گی یا نہیں؟میں نے ایک عالم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی کیوں کہ یہ بات ذہن میں ہے ، زبان سے کہی نہیں گئی ہے، لیکن حدیث میں یہ ذکر ہے کہ جب تک کوئی اس کو اپنی زبان سے نہ کہہ لے اور اس پر عمل نہ کرلے؟کیا یہ بات عمل میں شمار ہوگی جیسا کہ حدیث میں ہے؟ اللہ ہم سب کا حامی و نار ہو۔

    جواب نمبر: 50661

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 448-389/H=3/1435-U (۱) نکاح سے پہلے اپنی منگیتر کو طلاق نہیں دے سکتے، کیوں کہ نکاح سے پہلے طلاق دینے سے طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ مشکاة شریف میں ہے: ”لا طلاق قبل النکاح“ (باب الخلع والطلاق: ۲۸۴) اور شوہر کا جو قول ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ”تم میرے ساتھ رہنا نہیں چاہتی“ اس سے بھی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ (۲) کسی کے ذہن میں صرف یہ بات آئی کہ ”اگر میں فلاں کام کروں تو میری بیوی کو طلاق“ تو اس سے بھی طلاق نہیں ہوگی، کیوں کہ صرف دل دل میں خیال کرنے سے طلاق نہیں ہوتی، جب تک کہ زبان سے تلفظ نہ کیا ہو کما في الحدیث: عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ تجاوز عن أمتي ما وسوست بہ صدورہا ما لم تعمل بہ أو تتکلم“․ (مشکاة شریف، باب الوسوسة: ۱۸) اورمراقی الفلاح میں ہے: حتی لو أجری الطلاق علی قلبہ وحرک لسانہ من غیر تلفظ یسمع لا یقع وإن صح الحروف․ (حاشیة الطحطاوي، باب شروط الصلاة، ص:۲۱۹) اسی طرح مجمع الانہر میں ہے (باب شروط الصلاة ص:۱۵۷ ج۱)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند