معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 50650
جواب نمبر: 50650
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 338-60/D=3/1435-U (۱) والدین کی طرف سے اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے جو سامان اور تحائف دیے جاتے ہیں اُسے ”جہاز“ کہتے ہیں۔ الجہاز: ما زفت المرأة بہا إلی زوجہا من الأمتعة․ (قواعد الفقہ، ص: ۲۵۵، ط: دار الکتاب) والدین اپنی حیثیت کے مطابق بیٹی کو کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، پس اگر نمود ونمائش کے بغیر والدین بیٹی کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ دیں تو یہ بلاشبہ مباح ہے، لیکن لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ کیا جانا قطعی حرام ہے ألا لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفسہ (مسند أحمد: ۵/ ۱۱۳، ط: بیروت) اور لڑکی والوں کا نمود ونمائش کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر دینا ناجائز ہے، لیکن یہ بات قابل لحاظ ہے کہ موجودہ زمانے میں جہیز کا جس طرح رواج ہے وہ ایک بری رسم کی شکل اختیار کرگیا ہے، امیر وغریب ہرایک کے لیے لازمی درجہ کی چیز ہوگئی ہے، جس میں لڑکی والوں کی طرف سے طول طویل فہرست کی تکمیل کی جاتی ہے، اور اس کی عورتوں میں مرد اور کہیں مردوں میں فخر ومباحات کے ساتھ تعریف وتحسین کے لیے نمائش کی جاتی ہے اورمعاشرے میں اُسے ضروری سمجھ کر نہ دینے والوں کو گری نظر سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے لوگ نام آوری یا عزت بچانے کے لیے اپنی حیثیت سے زائد دینے کی کوشش کرتے ہیں، یا غریب لوگ مقروض ہوتے ہیں اور کبھی سود وزکاة کی رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، پس مروجہ جہیز کی رقم اپنے لوازمات کے ساتھ ایک قبیح رسم بن گئی ہے، لہٰذا مروجہ طریقے پر اُسے دینے سے گریز کیا جائے۔ خوش دلی سے حیثیت کے مطابق والدین جو دینا چاہیں ضروری چیزیں دینے پر اکتفاء کریں، صلہ رحمی کے لیے آئندہ زندگی بھی باقی ہے۔ (۲) مروجہ جہیز کی خرابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکیوں کوجہیز دے کر بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے وراثت سے حصہ دے دیا، اور پھر ورثاء اس کو وراثت سے محروم بھی کردیتے ہیں، اس عقیدے سے جہیز دینا قانون شریعت کی خلاف ورزی اور اس میں کھلی تحریف ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہبہ اور عطیہ میں حکم یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں میں برابری کی جائے، بہت سے لوگ جہیز کے طور پر لڑکیوں کو سونا، چاندی اور بڑے بڑے تحفے دے دیتے ہیں اور لڑکے اس سے محروم رہ جاتے ہیں، لہٰذا لڑکیوں کو جو کچھ دے خیال کرکے لڑکوں کو بھی اس کے مساوی اس موقع پر یا دوسرے موقع پر ہبہ کردے یا عطیہ دے دے، ایسا کرنے پر لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینا دشوار معلوم نہ ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند