• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 36486

    عنوان: مشوره

    سوال: میرے اور میرے والدین سے بیوی ناراض ہو کر اپنے رشتہ دار کے گھر جا کر بیٹھی ہے، میں نے اپنی پوری کوشش کری تھی فرحین کو اپنانے کی ، لیکن وہ نہیں مانی۔ ابھی وہ الگ گھر کا مطالبہ کررہی ہے۔ میں اپنے بوڑھے والدین کو نہیں چھوڑ سکتا اور میں اکیلا گھر کا بیٹاہوں۔ میرے اوپر میری چھوٹی بہن ، میری بہن کی بیٹی اور میرے والدین کی ذمہ دار ی ہے۔ میری بیوی کہتی ہے کہ اگر بیوی اور بچے چاہئے تو میرے پاس آؤ ۔ میں تمہارے پاس نہیں آؤں گی۔ میرے والدین فرحین کے کے ماموں اور خالہ کے گھر کئی مرتبہ گئے کہ فرحین کو کسی طرح سمجھا کر لائیں اور ہم میں سے کوئی نہیں چاہتاتھا کہ ہمارے بچے کا مستقبل خراب ہو۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے ۔ آپ مجھے کوئی اچھا مشورہ دیں۔ مجھے اپنے والدین اور بیوی میں سے کسی ایک سے رشتہ رکھنا ہے۔ آج پورے پانچ مہینے ہوگئے ہیں، لیکن کوئی خبر نہیں ہے میری بیوی کی ۔مجھ سے کوئی رابط نہیں ہوا ہے۔ میری مدد کریں ، میں بہت پریشان ہوں۔

    جواب نمبر: 36486

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 292=32-2/1433 آپ کے والدین کو ذریعہ معاش کے لحاظ سے اور اپنی صحت وتندرستی کے لحاظ سے آپکی مدد اور تعاون کی کس قدر ضرورت ہے اس کی تفصیل معلوم ہونے کے بعد تفصیلی حکم لکھا جائے گا۔ البتہ یہ بات قطعی ہے کہ بیوی بچوں کی خاطر ماں باپ کو بے یار ومددگار چھوڑدینا قطعا جائز نہیں، سخت گناہ ہوگا۔ اسی طرح والدین کا بیٹے کو مجبور کرنا کہ بیوی کو ان کے ساتھ رکھے یا ان کی خدمت کرے یا ان کی جانب سے ظلم وزیادتی کی مشکلیں ہوں اور شوہر بیوی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ انھیں حالات میں رہنے پر مجبور کرے یہ بھی جائز نہیں، سخت گناہ ہے۔ جس طرح بیوی بچوں کے حقوق ہیں اسی طرح والدین کے بھی حقوق ہیں، حالات اور ماحول نیز ضرورت کے تقاضے سے ہرایک کے حقوق ادا کرنے کی فکر کرنا ضروری ہے، ایسے حالات میں جب کہ آپ اپنے والدین کے اکلوتے لڑکے ہیں، بیوی کا آپ کو والدین سے جدا ہونے پر اصرار کرنا اگر بدون کسی معقول شرعی وجہ کے ہے تو غلط ہے، بیوی کو بھی اس پر دھیان دینا چاہیے کہ اگر اس پر ظلم و زیادتی کی شکل نہیں ہورہی ہے، تو والدین سے جدا کرنے کی فکر وکوشش نہ کرے جس سے آپ کے لیے الگ الگ ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی اور والدین کو اذیت وتکلیف پہنچے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند